1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ایک صدی پرانی، لکڑی کی پہلی مسجد کی باقیات دریافت

مقبول ملک8 ستمبر 2015

جرمن ماہرین آثار قدیمہ نے برلن سے جنوب کی طرف ایک چھوٹے سے شہر میں لکڑی کی بنی ممکنہ طور پر ملک کی پہلی ایسی باقاعدہ مسجد کی باقیات دریافت کی ہیں، جو پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنی تعمیر کے دس سال بعد منہدم کر دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1GSix
وُونسڈورف کی لکڑی کی مسجد اور اس کے نمازی: یہ تصویر ایک ایسے پوسٹ کارڈ کی ہے، جس کی پشت پر اکیس فروری 1916ء کی مہر لگی ہوئی ہےتصویر: Gemeinfrei

وفاقی دارالحکومت برلن کے نواحی شہر اور صوبے برانڈن برگ کے دارالحکومت پوٹسڈام سے منگل آٹھ ستمبر کے روز موصولہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس تاریخی مسجد کی باقیات برلن ہی میں قائم فری یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ نے دریافت کی ہیں۔

برلن سے قریب چالیس کلومیٹر جنوب کی طرف واقع چھوٹے سے شہر وُونسڈورف Wuensdorf میں کھدائی کرنے والی ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق اسے ماضی کی اس مسجد کی جگہ سے موٹی دھاتی تاروں اور لوہے کی چادروں کے علاوہ شیشے کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے اور اس مسجد کے لکڑی سے بنائے گئے گنبد کے کچھ حصے بھی ملے ہیں۔

ماہرین نے اپنی اس نئی دریافت اور ماضی میں اس مسجد کی چند بہت ہی پرانی تصویروں کی مدد سے جو مصدقہ حقائق جمع کیے ہیں، ان کے مطابق اس مسجد کا سارے کا سارا ڈھانچہ لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اس کے میناروں کی اونچائی 23 میٹر تھی۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ یہ مسجد ممکنہ طور پر جرمنی میں بنائی گئی پہلی مسجد تھی، جس کا افتتاح جولائی 1915ء میں ہوا تھا۔ اس کی تعمیر کا مقصد پہلی عالمی جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے جرمنی کی مخالف فوجی طاقتوں کے ان مسلمان جنگی قیدیوں کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنا تھا، جو اپنے لیے ایک مسلم عبادت گاہ کے خواہش مند تھے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران وُونسڈورف میں مجموعی طور پر قریب چار ہزار مسلمان جنگی قیدیوں کو رکھا گیا تھا اور ان کا تعلق برطانوی نوآبادی برٹش انڈیا، مراکش، تیونس اور الجزائر جیسے ملکوں سے تھا۔

ان ماہرین آثار قدیمہ نے دستیاب سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ 1915ء کے موسم گرما میں افتتاح کے بعد 1925 اور 1926 کے دوران کسی وقت اس مسجد کو منہدم بھی کر دیا گیا تھا۔

Deutschland Lange Nacht der Religionen in Berlin
آج کے جرمنی میں کئی ملین مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے طور پر بہت سی مساجد قائم ہیں: برلن کے علاقے نوئے کوئلن میں ترک مسلمانوں کی ایک مسجد کا اندرونی منظرتصویر: DW/K. Brady

وُونسڈورف میں کھدائی کرنے والی ماہرین کی ٹیم کے مطابق اب اس جگہ پر تاریخی مسلم عبادت گاہ کے بہت تھوڑے سے حصے ہی باقی بچے ہیں کیونکہ اس مسجد کے انہدام کے بعد یہ علاقہ پہلے نازی جرمن دستوں کے فوجی استعمال میں رہا تھا اور پھر اس پر سوویت یونین کی ریڈ آرمی کے دستوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق اب اس علاقے کو جلد ہی ان کنٹینروں کے لیے استعمال کیا جائے گا، جن کی مدد سے ان دنوں جرمنی آنے والے ہزاروں مہاجرین میں سے بہت سے تارکین وطن کے لیے وہاں عارضی رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ ان مہاجرین میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

فری یونیورسٹی برلن کے ماہرین کی اس ٹیم کا ارادہ ہے کہ وُونسڈورف میں اسے اس علاقے اور وہاں ماضی میں تعمیر کی گئی لکڑی کی مسجد سے متعلق جو بھی آثار و شواہد ملے ہیں، انہیں وہاں نئے آنے والے مہاجرین کے لیے عارضی رہائش گاہیں تعمیر کیے جانے سے قبل دستاویزی طور پر محفوظ کر لیا جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید