1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں اعتدال پسند مسلمانوں کی نئی انجمن

12 جون 2010

جرمن شہر ڈوئس بُرگ سے تعلق رکھنے والی سماجی علوم اور دینی تعلیم و تربیت کی ایک ماہر لامیا قادور کی جانب سے اعتدال پسند مسلمانوں کی ایک نئی انجمن کے قیام سے جرمنی میں مسلمانوں کی تنظیموں میں ایک مثبت اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/NpDq
فائل فوٹوتصویر: AP

’مسلمان، صنف نازک اور جرمن،‘ یہ عنوان ہے لامیا قادور کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب کا۔ انہوں نے اعتدال پسند مسلمانوں کی ایک انجمن قائم کی ہے۔ اپنی کتاب میں لامیا نے کوشش کی ہے کہ جرمنی میں آباد مسلمانوں کی اُس روز مرہ زندگی سے معاشرے کی اکثریتی آبادی یعنی جرمنوں کو آگاہ کیا جائے، جس کے بارے میں عام جرمن شہری بہت کم جانتے ہیں اور جسے کافی حد تک نظر انداز بھی کیا جاتا ہے۔

32 سالہ لامیا قادور نے اپنی اس نئی تنظیم کے قیام کے ذریعے ایسے غیر منظم لبرل مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، جو اب تک مسلمانوں کے نمائندہ کسی بھی ادارے یا تنظیم کا حصہ نہیں رہے۔ اس طرح ان لبرل مسلمانوں کی صدا بھی اس مغربی معاشرے میں سنی جا سکے گی۔ جرمنی میں زندگی بسر کرنے والے کافی اعتدال پسند مسلمان اگلے چند ماہ میں لامیا قادور کی قائم کردہ اس تنظیم میں شامل ہو کر مشترکہ طور پر اسلام کی ایک ایسی شکل پیش کرنے کی کوشش کریں گے، جو عہد حاضر کے کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔

لامیا قدور اوران کے ہم خیال اعتدال پسند مسلمانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ  قران کی تفسیر تاریخی پس منظر کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کے قیام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ دینی تعلیمات کے لئے خاتون آئمہ کی تقرری کو فروغ دیا جائے۔ اس بارے میں لامیا قادور کا کہنا ہے: ’میرے خیال میں خواتین اس پیشے کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ خاص طور سے کسی برادری کی قیادت، پریس کے کاموں اور الٰہیات سے متعلق اہم معاملات کے مناسب حل تلاش کرنے جیسے کاموں میں خواتین زیادہ ذمہ دارانہ کر دار ادا کرتی ہیں۔ خواتین میں پائی جانے والی ان تمام خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورتیں ان معاملات میں مردوں سے بہتر ثابت ہو سکتی ہیں۔‘

خواتین کو آئمہ کے طور پر تربیت دینے اور ان کے فروغ کے ضمن میں اس تنظیم کو یقیناً قدامت پسند مسلمانوں کی تائید حاصل نہیں ہوگی۔ تاہم اس تنظیم کے وسیع تر مقاصد میں جرمنی میں ملک گیر سطح پر اسلامیات کی جرمن زبان میں تدریس کا بندوبست اور مسلم برادری میں مردوں اور خواتین کے لئے مساوی حیثیت، جمہوری نظام کے بنیادی اصول و ضوابط اور غیر ملکی اثرات سے آزاد ہونے کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

Deutschland Rechtsextremismus Jugendliche Studie
لامیا قادور جرمنی میں آباد ایسے مسلمانوں کی سوچ اور اُن کے نقطہ نظر کی عکاسی کرنا چاہتی ہیں جن کا تعلق لبرل یا روشن خیال مسلمان حلقوں سے ہےتصویر: AP

لامیا قادور جرمنی میں آباد ایسے مسلمانوں کی سوچ اور اُن کے نقطہ نگاہ کی عکاسی کرنا چاہتی ہیں جن کا تعلق لبرل یا روشن خیال مسلمان حلقوں سے ہے۔ ایسے مسلمان جو قرانی آیات کو اُن کے سیاق و سباق اور تاریخی پس منظر میں پڑھتے اور سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں لامیا قادور کہتی ہیں: ’ لبرل یا آزاد خیال مسلمانوں کے لئے روایات ثانوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ دراصل ہم اسلام کو قومیت سے عبارت نہیں سمجھتے، نہ ہی اس دین کو کسی خطے، زبان، قوم یا کسی نسل کے ساتھ وابستہ کر کے دیکھتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم عرب اسلام یا ترک اسلام کی بات نہیں کرتے۔ ہماری نگاہ میں اسلام کو دور حاضر کے ساتھ مطابقت رکھنے والا مذہب سمجھنا چاہئے اور اسی اعتبار سے اس دین پر عمل پیرا بھی ہونا چاہئے۔ یہ ہے فرق ایک روشن خیال اور ایک قدامت پسند مسلمان کے درمیان ۔‘‘

لامیا قادور کی رائے میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بہت سی آیات موجودہ دور میں بھی حرف بحرف قابل عمل ہیں۔ تاہم اس خاتون کے بقول: ’’کئی آیات ایسی بھی ہیں جنہیں دور حاضر میں لفظ بہ لفظ قابل اطلاق نہیں سمجھا جا سکتا۔‘‘

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : مقبول ملک