1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں مہاجرين اور ان کے مراکز پر حملوں ميں نماياں کمی

عاصم سلیم
28 فروری 2018

جرمنی ميں مہاجرين اور ان کی رہائش گاہوں و مراکز پر ہونے والے حملوں ميں کمی ديکھی گئی۔ جرمن حکومت نے پناہ کے ليے ملک ميں پہنچنے والے تارکين وطن کے خلاف ايسے حملوں کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2tRHy
Deutschland Bayern Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/C. Strache

جرمنی ميں پناہ گزينوں کو سن 2017 ميں نفرت پر مبنی 1,906 حملوں کا نشانہ بنايا گيا۔ اس کے علاوہ لگ بھگ تين سو واقعات ميں مہاجر کيمپوں پر بھی حملے کيے گئے۔ يوں مہاجرين اور ان کی پناہ گاہوں پر کيے گئے مجموعی حملوں کی تعداد 2,219 رہی۔ يہ اعداد و شمار ’فنکے ميڈيا گروپ‘ نے جرمن وزارت داخلہ کے حوالے سے جاری کيے ہيں۔ ان حملوں ميں مہاجرين پر تشدد، ان پر جملے کسنا، ان کے مکانات و مراکز ميں ناجائز داخلہ، کيمپوں کو نذر آتش کرنا اور ديسی ساختہ بموں سے حملے شامل ہيں۔ ایسے حملوں ميں تين سو کے قريب تارکين وطن زخمی بھی ہوئے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے سن 2016 کے مقابلے ميں سن 2017 کے دوران ايسے حملوں کی تعداد ميں ايک تہائی کمی نوٹ کی گئی۔

وفاقی جرمن حکومت نے پناہ گزينوں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ دريں اثناء بائيں بازو کی سياسی جماعت سے وابستہ قانون ساز اُولا يُلپکے نے جرمنی ميں ايسے حملوں کے ذمہ دار دائيں بازو کی عوامیت پسند پارٹی اے ایف ڈی اور چانسلر انگيلا ميرکل کی کرسچين ڈيموکريٹک يونين کو ٹھہرايا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مہاجرين پر سن 2017 کے دوران دو ہزار سے زائد حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہيں کہ عوام پر جارحانہ رويہ طاری ہے، جس کی وجہ  AfD اور دائيں بازو اور انتہا پسندوں کی ديگر تنظيميں ہيں۔‘‘ يلپکے نے مزيد کہا کہ سی ڈی يو اور صوبہ باويريا ميں اس کی اتحادی جماعت کرسچين سوشل يونين کے ’پراپگينڈا‘ سے بھی ايسے گروپوں کی حوصلہ افرائی ہوئی ہے۔ انہوں نے سی ڈی يو اور س ايس يو کے بارے ميں يہ بھی کہا کہ يہ پارٹياں مہاجرين کے خلاف سختياں متعارف کرانے کے مطالبات سامنے رکھنے کے ليے کوئی موقع ہاتھ سے نہيں جانے ديتيں۔

جرمنی ميں چانسلر انگيلا ميرکل نے مہاجرين کے بحران کے عروج پر سن 2015 ميں تارکين وطن کی ليے سرحديں کھول دی تھيں۔ ان کا يہ اقدام متنازعہ ثابت ہوا کيوں کہ اس کے بعد ايک بڑی تعداد ميں پناہ گرين جرمنی پہنچے، جس سبب سياسی و سماجی سطح پر جرمنی ميں تبديلياں آئيں۔ ان کے اس اقدام کو آزاد خيال اور بائيں بازو کی قوتيں مثبت انداز سے ديکھتی ہيں تاہم قدامت پسند گروپ اس سے نالاں بھی ہيں۔

’مہاجرين کو گھروں ميں پناہ دينے والوں کے گھروں پر چھاپے‘