1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: حکومت ميں شامل اتحادی ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ پر منقسم

7 اپریل 2018

جرمن چانسلر کےطور پر انگيلا ميرکل کی چوتھی مسلسل مدت کے ابتدائی چند ہفتے اميگريشن کے موضوع پر اختلافات ميں گھرے رہے۔ مخلوط حکومت ميں شامل جماعتوں کے درميان ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ ايک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ve2A
Deutschland Frau Muslimische Frau holt Kinder von Schule ab
تصویر: picture-alliance/W. Rothermel

چانسلر انگيلا ميرکل کی سياسی پارٹی کرسچيئن ڈيموکريٹک يونين (CDU) ميں شامل قدامت پسند ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ يا مہاجرين کے اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کے عمل کو کافی زيادہ محدود کرنا چاہتے ہيں۔ تاہم کوليشن حکومت ميں شامل سوشل ڈيموکريٹس کی جماعت (SPD) اس سے نالاں ہے۔

جرمنی ميں پچھلے سال چوبيس ستمبر کو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد حکومت سازی کا عمل کئی ماہ تک جاری رہا اور پھر کہيں جا کر پچھلے ماہ ہی نئی حکومت بن سکی۔ اس طويل اور انتہائی پيچيدہ عمل ميں ايس پی ڈی نے کافی اہم کردار ادا کيا۔ کوليشن حکومت کے قيام کے ليے قدامت پسندوں اور سوشل ڈيموکريٹس کے مابين طے پانے والے معاہدے کے تحت ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کے تحت ماہانہ بنيادوں پر ايک ہزار افراد جرمنی داخل ہو سکتے ہيں اور اس ڈيل کا اطلاق صرف قريبی رشتہ داروں پر ہوتا ہے۔

تاہم اب وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر اس سہولت کو مزيد کٹھن بنانا چاہتے ہيں۔ ان کی جانب سے پيش کردہ ايک مجوزہ قانون کے مسودے ميں تجويز کيا گيا ہے کہ رياست کی جانب سے سماجی سہوليات حاصل کرنے والے تارکين وطن کے لیے اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانا  ممنوع قرار ديا جائے۔ علاوہ ازيں وہ ان رشتہ داروں کی فہرست کو بھی مزيد محدود بنانا چاہتے ہيں، جنہيں ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کے تحت بلايا جا سکے۔ مثال کے طور پر وہ بہن، بھائی کو اس فہرست سے خارج کرنا چاہتے ہيں، جس کا مطلب يہ ہے کہ اگر جرمنی ميں کسی شخص کو پناہ مل جاتی ہے، تو وہ اپنے کسی بہن يا بھائی کو يہاں نہيں بلا پائے گا۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ سن 2015 ميں مہاجرين کے بحران کے عروج پر اور اس کے بعد کے سالوں ميں سياسی پناہ کے ليے جرمنی آنے والے لاکھوں تارکين وطن اس وقت تک زبان سيکھنے، تربيت حاصل کرنے اور ايسے ديگر عوامل ميں مصروف ہيں اور نتيجتاً سماجی سہوليات پر گزر بسر کر رہے ہيں۔ يعنی وہ ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ سے مستفيد نہيں ہو پائيں گے۔

Infografik Deutschlandtrend Infografik Deutschlandtrend Familiennachzugsregelung laut Koalitionsvereinbarungen ENG

ہورسٹ زيہوفر صوبہ باويريا ميں سی ڈی يو کی اتحادی اور انتہائی قدامت پسند جماعت کرسچين سوشل يونين کے سابق سربراہ ہيں۔ زيہوفر کی کوشش ہے کہ وہ اسی سال ہونے والے رياستی انتخابات سے قبل اپنی پارٹی کی ’مہاجرين مخالف‘ ساکھ کو تقويت بخش سکيں، جسے دائيں بازو کی مہاجرين اور اسلام مخالف جماعت ’آلٹرنيٹو فار ڈوئچلانڈ‘ (AfD) سے کڑے مقابلے کا سامنا ہے۔

جرمن جريدے ’ڈيئر اشپيگل‘ ميں ہفتے کو چھپنے والے اپنے ايک انٹرويو ميں زيہوفر نے کہا ہے کہ وہ سماجی نظام ميں بہت بڑی تعداد ميں نئے لوگوں کی آمد نہيں چاہتے۔ قبل ازيں وہ يہ بيان بھی دے چکے ہيں کہ ’اسلام جرمنی کا حصہ نہيں۔‘

سوشل ڈيموکريٹس زيہوفر کے متنازعہ بيانات اور ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ کے حوالے سے ان کے مجوزہ قانون کے خلاف کھڑے ہيں۔ ايس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے جرمن وزير انصاف ہائيکو ماس نے حال ہی ميں کہا ہے کہ ’نمبر گھٹانے کے کسی نئے معاہدے پر اتفاق ممکن نہيں۔‘ اس کے رد عمل ميں زيہوفر نے کہا ہے کہ ان کا مجوزہ قانون کوليشن ڈيل ميں طے شدہ معاہدے کے قريب ہی ہے اور اس پر سوشل ڈيموکريٹس کو پريشان ہونے کی ضرورت نہيں۔

ع س / ش ح، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید