1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور کم عمری کی شادیاں

عدنان اسحاق 2 ستمبر 2016

آج کل جرمنی میں مہاجر خاندانوں میں کم عمری کی شادی کے کئی واقعات کے سلسلے میں جرمن عدالتوں سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ وکلاء غیر واضح قوانین کا ابہام کو دور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jugl
تصویر: Mehr

ایک چودہ سالہ لڑکی نے شام میں ایک اکیس سالہ نوجوان سے شادی کر لی، جو اُس کے قریبی عزیزوں میں سے تھا۔ اس کے بعد یہ دونوں جنگ سے تباہ حال اِس ملک سے ہجرت کر کے جرمن شہر آشافن بُرگ پہنچ گئے۔ نوجوانوں کے امور سے متعلق جرمن ادارے نے ان کی شادی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس چودہ سالہ لڑکی کو تحفظ دینے کے غرض سے تحویل میں لے لیا گیا۔ تاہم اس کے شوہر نے اس واقعے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بامبرگ شہر کی ہائی کورٹ نے اس مقدمے کا سنسنی خیر فیصلہ دیا۔ اس سلسلے میں بامبرگ کے ججوں نے جرمنی کے بنیادی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک ہونے والی شادیوں کو اُنہی ممالک کے قوانین کی روشنی میں دیکھا جائے اور اس طرح عدالت نے اس شادی کو قانونی قرار دے دیا۔

آشافن بُرگ کی شہری انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف جرمن آئینی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ جرمنی میں بچوں یا کم عمری میں شادیوں کا موضوع ایک طرح سے تقریباً دفن ہو چکا تھا تاہم اس واقعے کے بعد یہ ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا ہے۔ جرمنی میں ایک طویل عرصے سے بچوں کی شادیوں کے کچھ واقعات میں خصوصی اجازت نامے بھی دیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے بہت سے نمائندوں کے علاوہ سیاستدان اور قانون دان بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ کم عمری کی شادیوں پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں ’سی ایس یو‘ اور ’سی ڈی یو‘ کے ایک مسودے کے مطابق’ گیارہ، تیرہ یا پندرہ سال کی کسی بچی کا ازدواجی بندھن سے نہیں بلکہ اسکول سے تعلق ہوتا ہے‘‘۔

اس مقصد کے لیے جو ٹیم قائم کی گئی ہے، اس کی کوشش ہے کہ وہ اس تناظر میں جرمن قوانین کو تبدیل کرائے۔ اس دوران کوشش کی جائے گی کہ اگر بیرون ملک سولہ سال سے کم عمر کسی لڑکی کی شادی کر دی گئی ہے تو اسے جرمنی میں تسلیم نہ کیا جائے اور صرف بالغ لڑکی اور لڑکے کے ازدواجی رشتے کو ہی قانونی حیثیت دی جائے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں اس طرح کی شادیوں کے لیے خصوصی اجازت نامے دینے کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔ ساتھ ہی نابالغ شادی شدہ لڑکی کو تنہا ہی تصور کیا جائے تاکہ اسے تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو۔