1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور ترکی کے مابین پھر تناؤ

عدنان اسحاق23 جون 2016

جرمن پارلیمان کے متعدد ارکان نے ترک حکومت کی جانب سے جرمن سیاستدانوں کو اس فوجی چھاؤنی کا دورہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر شدید اعتراض کیا ہے، جہاں جرمن ٹورناڈو طیارے بھی تعینات ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JBjj
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن رکن پارلیمان فلوریان ہان نے انقرہ حکومت کے اس اقدام کو ایک منظم اور سوچی سمجھی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ اس موقع پر ترکی کے خلاف نتائج کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ فلوریان ہان کے مطابق یہ اشتعال انگیزی جرمنی کی سلامتی سے متعلق داخلہ پالیسیوں کے خلاف ہے، ’’ہمیں اس صورتحال میں اس کا کوئی نعم البدل سوچنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ٹورناڈو جاسوس طیاروں کو اینجرلیک سے عمان منتقل کرنے کے بارے میں سوچیں تاکہ ہماری صلاحیتوں کو محدود نہ کیا جا سکے۔‘‘

ترکی نے جرمن سیکرٹری دفاع رالف براؤک زیپے کو ترک فضائیہ کی اینجرلیک چھاؤنی کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔ جرمن وزارت دفاع کے مطابق براؤک زیپے جولائی میں کچھ دیگر ارکان پارلیمان کے ساتھ اس چھاؤنی کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ ترک ذرائع نے بتایا کہ انقرہ حکومت کی جانب سے یہ قدم جرمن پارلیمان کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی شہریوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دینے کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اینجرلیک میں جرمن جاسوس طیارے ٹورناڈو بھی تعینات ہیں، جو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف قائم کیے گئے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں۔

Deutscher Bundestag Deutschlandflagge
تصویر: picture-alliance/dpa/Arco Images/ W. Wirth

ماحول دوست گرین پارٹی کے دفاعی شعبے کے ماہر توبیاس لنڈنر نے جرمن اخبار ’بلڈ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے برلن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اینجرلیک کی چھاؤنی میں تعینات جرمن دستوں کی رہائش اور دیکھ بھال کے منصوبوں میں توسیع کرنے کے اپنے فیصلے پر فوری طور پر نظر ثانی کرے، ’’ اگر ترکی ہمارے سیاستدانوں کو ہمارے ہی فوجی دستوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا تو جرمن فوج کو بھی ٹیکس کی رقوم سے چھاؤنی پر خرچ کرنے کو کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

جرمن وزارت دفاع نے بدھ 22 جون کی شب تصدیق کی تھی کہ ترکی نے جرمن سیاستدانوں کو اینجرلیک کی فوجی چھاؤنی کا دورے کرنے سے روک دیا ہے۔ ابھی جون میں ہی جرمن پارلیمان نے سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی باشندوں کی ہلاکت کو ’نسل کُشی‘ قرار دیا تھا۔ اس پر ترکی کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔