1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور ترکی کے درمیان حکومتی رابطوں کی بحالی پر اتفاق

عابد حسین
17 جنوری 2018

ترک اور جرمن حکومتوں نے تقریباً ایک سال بعد اپنے دو طرفہ تعاون کے سلسلے کو بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سلسلے میں دونوں حکومتوں کے وفود کے درمیان رابطوں کی بحالی ک بعد تواتر سے ملاقاتیں ممکن ہوں گی۔

https://p.dw.com/p/2qxYU
Deutschland Außenministertreffen in Goslar | Mevlut Cavusoglu und Sigmar Gabriel (Asschnitt vom Händeschütteln)
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اقدامات کے تناظر میں برلن اور انقرہ حکومتوں کے درمیان شدید کھچاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ترک رہنما بسا اوقات برلن حکومت پر الزام لگا چکے ہیں کہ وہ جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترک جرمن کشیدگی: ایردوآن اب میرکل سے ذاتی ملاقات کے متمنی

ترکی میں چھٹیاں گزارنے والے جرمنوں کی تعداد میں اضافہ

ترکی میں قید جرمن صحافی کی رہائی کا عدالتی حکم

جرمنوں کی نظر میں ٹرمپ شمالی کوریا اور روس سے زیادہ بڑا خطرہ

اب دونوں حکومتوں کے درمیان رابطوں کو بحال کرنے کے آثار سامنے آئے ہیں اور اسی تناظر میں بدھ سترہ جنوری کو ایک اعلیٰ سطحی ترک وفد جرمن دارالحکومت پہنچا ہوا ہے۔ یہ وفد جرمن حکام کے ساتھ سکیورٹی امور پر بات کرے گا۔

ان رابطوں کی بحالی کو جرمنی کے معتبر اخبار ’ڈی ویلٹ‘ نے رپورٹ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ترک وفد جرمن دارالحکومت میں وزارت داخلہ کے اعلیٰ اراکان سے ملاقاتیں کرتے ہوئے سلامتی کے دو طرفہ امور کو مزید بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔

جرمن اور ترک وزارت داخلہ کے اراکان کی میٹنگ میں سب سے اہم معاملہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس کے جنگجوؤں سے متعلق ہے۔ دونوں ممالک کے حکام اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ داعش کے شام اور عراق سے پیچھے ہٹنے والے شدت پسندوں اور اُس کے دونوں ملکوں میں موجود حامیوں کو کنٹرول کیسے کرنا ہے تا کہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ارتکاب نہ کر سکیں۔

Symbolbild Flagge Verhältnis Türkei Deutschland
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کے بعض اقدامات کے تناظر میں برلن اور انقرہ حکومتوں کے درمیان شدید کھچاؤ پیدا ہو گیا تھاتصویر: Imago/Ralph Peters

جرمن وزارت داخلہ کی خاتون ترجمان نے برلن میں اخبار ’ڈی ویلٹ‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ جرمنی کسی حد تک ایسے جہادیوں کا وہ مرکز ہے جہاں سے یورپی جہادی شدت پسند تنظیم میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے اور اب وہ ممکنہ طور پر واپس جرمنی لوٹنے کے عمل میں ہیں۔ ترجمان کے مطابق ان جہادیوں نے جرمنی سے اپنا سفر شروع کر کے ترکی پہنچنے کے بعد شامی سرزمین میں داعش کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ماضی میں اس شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے جہادیوں نے ترکی اور جرمنی کو نشانہ بنایا ہے اور تعاون کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ دہشت گردی کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

جرمن اور ترک حکومتوں کے وزارت داخلہ کے حکام کے درمیان سابقہ ایسی میٹنگ فروری سن 2017 میں ہوئی تھی۔۔ اُس وقت جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔