1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری

عاصم سلیم
23 جنوری 2018

جرمن شہر ڈوسلڈورف سے افغان مہاجرين کو ايک خصوصی پرواز پر منگل کو واپس افغانستان روانہ کيا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم جرمن رضاکاروں نے ملک سے افغان تارکين وطن کی جبری ملک بدری پر شديد تنقيد کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2rMHD
Abschiebung
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte

افغانستان میں مسلسل دہشت گردانہ حملوں کے باوجود جرمنی سے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ آج تئیس جنوری بروز منگل جرمن شہر ڈوسلڈورف سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے مزید ایسے افغان شہریوں کو کابل روانہ کیا جا رہا ہے، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

سياسی پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق کے ليے سرگرم غير سرکاری تنظيم ’پرو ازُول‘ نے اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل کے ايک ہوٹل پر ہونے والا حملہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ طالبان عسکريت پسند ملک ميں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت حملے کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ تنظيم کے مطابق جرمن حکام کا ايسا سمجھنا کہ افغانستان ميں محفوظ علاقے موجود ہيں، ايک غلط تاثر ہے۔ پرو ازول کی جانب سے يہ بيان منگل کو جاری کيا گيا۔

افغانستان ميں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کی رات جنگجوؤں نے کابل کے پرتعيش ’انٹر کانٹينينٹل ہوٹل‘ پر حملہ کر ديا تھا۔ اس حملے ميں اب تک بائيس افراد کی ہلاکت کی تصديق ہو چکی ہے، جن میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم جرمن رضاکاروں نے اسی تناظر ميں افغان تارکين وطن کی ملک بدری پر تنقيد کی۔

افغان مہاجرين کو واپس ان کے ملک لے جانے والی جرمنی سے يہ نويں خصوصی پرواز ہو گی۔ رضاکاروں سے موصولہ غير مصدقہ اطلاعات کے مطابق خصوصی جہاز ڈوسلڈورف سے آج شام کسی وقت اڑے گا اور کابل ميں اس کی آمد مقامی وقت کے مطابق کل صبح چھ بج کر پچاس منٹ پر متوقع ہے۔

پرو ازول نے اپنے بيان ميں برلن حکومت پر تنقيد کرتے ہوئے يہ بھی لکھا ہے کہ وفاقی جرمن دفتر خارجہ گزشتہ برس موسم خزاں کے بعد سے اب تک افغانستان میں سکیورٹی کی تازہ صورتحال پر کوئی رپورٹ پيش کرنے ميں ناکام رہا ہے۔ افغانستان ميں سکيورٹی کی تازہ ترين صورتحال پر مبنی رپورٹ کی عدم دستيابی کا مطلب يہ ہے کہ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) کے حکام اور عدالتيں، فيصلے لينے کے ليے اس ضمن ميں تازہ صورتحال سے واقف نہيں۔

دريں اثناء جرمن پوليس کی يونين GdP کے نائب سربراہ يورگ راڈک نے ملک بدری کے عمل کے ليے اضافی پندرہ ہزار اہلکاروں کا مطالبہ کيا ہے۔ صوبہ باويريا کے ايک ريڈيو اسٹيشن سے بات چيت کے دوران انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 243 مرتبہ نہ صرف افغانستان بلکہ مغربی افريقہ اور بلقان خطے سے تعلق رکھنے والے سينکڑوں مہاجرين اور تارکین وطن کو مختلف گروپوں ميں ملک بدر کيا گيا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل ميں پوليس اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی ليے يہ اضافی افرادی قوت درکار ہے۔

فرینکفرٹ میں ملک بدریوں کے خلاف سینکڑوں افراد کا مظاہرہ