1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کمانڈو فورس میں مبینہ انتہا پسندی، چھان بین شروع

18 اگست 2017

جرمن شہر ٹیوبنگن کے صوبائی استغاثہ اُن الزامات کی چھان بین شروع کر دی ہے، جن کا تعلق جرمن فوج یعنی بنڈس ویئر کی اسپیشل فورسز کی ایک الوداعی تقریب میں مبینہ طور پر دائیں بازو نطریات کی سرگرمیوں سے ہے۔

https://p.dw.com/p/2iSXU
Deutschland Kommando Spezialkräfte der Bundeswehr
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے اٹارنی جنرل کے پراسیکیوٹر نکولاؤس ویگلے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ جمعرات کے دن باقاعدہ چھان بین کا آغاز کر دیا گیا ہے کہ آیا جرمنی کی اسپیشل فورس کمانڈو (KSK) کے ارکان نے دائیں بازو کی سرگرمیاں سر انجام دیا ہے یا نہیں۔

جرمن ملٹری یونیورسٹی میں انتہا پسند عناصر فعال؟

جرمن فوج کا دہشت گردی اسکینڈل، مزید گرفتاریاں

دہشت گردی کی مبینہ منصوبہ بندی، جرمن فوج کا لیفٹیننٹ گرفتار

افغانستان میں جرمن فوج کے تربیت کار

یہ کمانڈو ملکی فوج کی ایلیٹ فورس ہے، جس کے بارے میں عوامی سطح پر معلومات خفیہ ہی رکھی جاتی ہیں۔

ٹیوبنگن کے پراسیکیوٹر نکولاؤس ویگلے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘‘

یہ فورس سن انیس سو چھیانوے میں بنائی گئی تھی، جس کا مقصد جنگی علاقوں میں جرمن یرغمالیوں کی رہائی تھا۔

جرمنی کی اسپیشل فورس کمانڈو (KSK) کے انتہائی ماہر ارکان افغانستان کے علاوہ بلقان میں بھی اپنی کارروائیاں سر انجام دے چکے ہیں۔

جرمن پبلک ریڈیو اسٹیشنز ریڈیو بریمن، این ڈی آر، زیڈ ڈی ایف اور اے آر ڈی نے اپنی رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ جرمن کمانڈو فورسز ’کے ایس کے‘ کی  ستائیس اپریل سن دو ہزار سترہ کو منعقد ہوئی ایک فیئرول پارٹی میں انتہائی دائیں بازو کی علامات کی نمائش کی تھی۔ یہ پارٹی اشٹٹ گارٹ کے قریب واقع ایک شوٹنگ رینج میں منعقد کی گئی تھی۔

مبینہ طور پر اس پارٹی میں ان کمانڈوز نے نازی سلیوٹ کیے، دائیں بازو کے نظریات کا حامل روک میوزک سنا اور خنزیر کے کٹے ہوئے سر کی علامتی نمائش کی۔ یہ امر اہم ہے کہ دائیں بازو کے کٹر پسندوں کی سرگرمیوں میں خنزیر کے کٹے ہوئے سر کی نمائش بھی کی جاتی ہے کیونکہ یہ جانور اسلام اور یہودیت میں حرام ہے۔

ان رپورٹوں کے مطابق اس پارٹی میں موجود ایک خاتون کی طرف سے گواہی دینے پر ٹیوبنگن نے یہ چھان بین شروع کی ہے۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کے ایک فوجی دوست نے اسے اس پارٹی میں مدعو کیا تھا۔ انہوں نے ویٹس ایپ پیغامات کو بطور شہادت پیش بھی کیا۔

دوسری طرف جرمن فوج نے اس واقعہ پر داخلی سطح پر بھی انکوائری شروع کر دی ہے۔ ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ابھی تک ان الزامات کے بارے میں ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مبینہ واقعے کے بارے میں فوج کو تیرہ جولائی کو علم ہوا تھا۔