1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خزانہ پر اپوزیشن کی برہمی

ندیم گِل21 اگست 2013

جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے نے کہا ہے کہ یونان کو مزید ایک بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت پڑے گی۔ اپوزیشن نے ان کے اس بیان پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19Tm1
تصویر: Reuters

وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب انتخابات محض پانچ ہفتوں کے فاصلے پر ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے اس بیان کو سنگین غلطی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کی وجہ سے بیل آؤٹ پیکیجز میں جرمنی کا حصہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات اس کے ٹیکس دہندگان کو پسند نہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چانسلر انگیلا میرکل پوری انتخابی مہم میں یونان کے قرضوں کے بحران پر بات کرنے سے گریز کرتی آئی ہیں جس کا مقصد ووٹروں کے غصے سے بچنا ہے۔

منگل کو شوئبلے کا بیان سامنے آنے سے پہلے ایک جرمن اخبار میں میرکل کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ یونان کے دوسرے امدادی پیکیج کی مدت ختم ہونے سے قبل اضافی مدد کی بات کرنا بے کار ہے۔

Bundekanzlerin Angela Merkel bei den Bayreuther Festspielen 2012
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم میرکل کے اس بیان کو عام ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک انتخابی جلسے کے دوران شوئبلے نے یونان کے لیے اضافی بیل آؤٹ کو یقینی قرار دے دیا۔ تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگرچہ محدود لیکن یونان کو مزید امداد کی ضرورت پڑے گی۔ قبل ازیں اسے حاصل ہونے والے بیل آؤٹ پیکیجز کا حجم 240 بلین یورو رہا ہے۔

اپوزیشن نے اس بیان پر شوئبلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ آئندہ ماہ کے انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے میرکل کے حریف اور سوشل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی) امیدوار پیئر شٹائن بروک نے کہا: ’’میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ یورپ کے تحفظ اور اس براعظم کو متحد رکھنے کی ایک قیمت چکانی پڑے گی، جرمن عوام کو بھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ محترمہ میرکل عوام کو سچ سے آگاہ کریں۔‘‘

گرین پارٹی کے رہنما یوئرگین ٹریٹین کا کہنا ہے کہ شوئبلے نے میرکل کا ’دھوکہ‘ واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے یونان میں کفایت شعاری کی پالیسیوں کی وکالت پر چانسلر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

روئٹرز کے مطابق آئندہ ماہ کے انتخابات میں میرکل کی کامیابی کا امکان ہے جس کے نتیجے میں وہ تیسری مدت کے لیے چانسلر بن جائیں گی۔ اس ممکنہ کامیابی کی ایک وجہ یہ ہو گی کہ ووٹروں نے بیل آؤٹ حاصل کرنے والے ملکوں کے حوالے سے ان کے سخت مؤقف کو سراہا ہے۔