1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ کا دورہٴ ترکی

عابد حسین
4 جون 2017

جرمن وزیر خارجہ کل پیر پانچ جون کو ترکی کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ جرمن وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ اُن کے دورہٴ ترکی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/2e6Xl
Bundesaußenminister Sigmar Gabriel in den USA
تصویر: Picture alliance/dpa/B. von Jutrczenka

جرمنی اور ترکی کے تعلقات حالیہ ہفتوں میں سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل کے پیر سے شروع ہونے والے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری پیدا ہونے کی امید کے علاوہ تناؤ میں کمی کا امکان ہے۔

روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں صحافیوں کے ساتھ گفت گو کرتے ہوئے زیگمار گابریل کا کہنا تھا کہ وہ اس دورے کے دوران تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کے امکانات پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے۔ گابریل نے روسی دورے کے دوران صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔

ترکی کے دورے کے موقع پر وہ ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش آولُو کے ساتھ ملاقات کریں گے اور دوطرفہ تعلقات کی تازہ ترین صورت حال کو زیر بحث لائیں گے۔ یہ ملاقات ترک دارالحکومت انقرہ میں ہو گی۔ اس میٹنگ میں مرکزی موضوع ترکی کی جانب سے جرمن اراکینِ پارلیمان پر عائد وہ پابندی ہے جس کے تحت وہ انجیرلیک کے فوجی ہوائی اڈے پر متعین جرمن فوجیوں سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ جرمن صحافیوں کی گرفتاری بھی ایک اہم متنازعہ معاملہ ہے اور یہ بھی دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں زیر غور آ سکتا ہے۔

Russland - Außenminister Sigmar Gabriel und Vladimir Putin
گابریل نے روسی دورے کے دوران صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی ملاقات کی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/TASS/M. Metzel

 تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کا مقصد ہی ان حل طلب معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنا ہے یا پھر اِن تنازعات کے مثبت حل تلاش کرنا ہیں۔ اس پابندی کے تناظر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ ماہ برسلز میں نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر ترک حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر یہ پابندی ختم نہ کی گئی تو وہ ترکی میں متعین اپنے فوجی واپس طلب کر سکتی ہیں۔

 ترک فوجی اڈے انجر لیک پر 260 جرمن فوجی متعین ہیں۔ ترک حکام کی جانب سے یہ پابندی جرمنی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک شہریوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کے تناظر میں ہے۔ جرمن حکام ان ہزاروں درخواستوں پر دفتری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔