1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن لوگ: مطالعے کے شوقین

رپورٹ: امجد علی ۔ ادارت، عدنان اسحاق12 اکتوبر 2009

جرمنی میں کتاب پڑھنے کے رجحان کا گراف خاصا بلند خیال کیا جاتا ہے۔ اِن میں تاریخی، سیاسی و سماجی، رومانی ناولوں سے لے کر تھرلر تک پسند کئے جاتے ہیں۔ نئی کتابوں کو خریدنے کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/K4EL
ہرتھا ملر کی کتاب کے مطالعے میں مصروف ایک جرمن خاتون: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

جرمنی مطالعے کے بے حد شوقین باشندوں کا ملک ہے۔ تاہم یہاں کی کتابوں کی منڈی میں جرمن، یورپی اور امریکی ادب کو غلبہ حاصل ہے۔ افریقہ، ایشیا یا لاطینی امریکہ میں تخلیق ہونے والے ادب سے، جسے یہاں عام طور پر عالمی ادب کہا جاتا ہے، یہاں جرمنی میں بہت کم لوگ واقف ہیں۔

بین الاقوامی ادبی شاہکار فروخت کرنے والے بُک اسٹور Bittner کی شاخیں پورے جرمنی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اِس کی کولون شاخ میں کام کرنے والی خاتون باربرا کلے فِش کا کہنا ہے کہ بہت سے قارئین کے ذہنوں پر یورپی اور امریکی ادب کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر کو کسی دوسرے خطے کے ادب کے مطالعے کا آغاز کرنا بہت محنت طلب کام لگتا ہے۔

جرمنی میں غیر یورپی شاہکاروں کے تراجم کی اشاعت کا سلسلہ ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے کے آغاز پر چھوٹے چھوٹے اشاعتی اداروں نے کیا۔ یہ ادارے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کے ادب میں جرمن قارئین کی دلچسپی پیدا کرنا چاہتے تھے۔

ان ابتدائی اداروں میں پےٹر ہامر پبلشرز بھی شامل تھے، جنہوں نے افریقی اور لاطینی امریکی ادب کے تراجم شائع کئے۔ آج کل اِس اشاعتی ادارے کی انچارج مونیکا بِیل شٹائن کا خیال ہے کہ اِن کتابوں کے قارئین کی تعداد کم ہرگز نہیں تھی کیونکہ تب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو، جو خاص طور پر تیسری دنیا کی تحریکوں اور گروپوں سے تعلق رکھتے تھے، اِس طرح کے ادب میں دلچسپی بھی تھی۔ پھر یہ سلسلہ کافی حد تک تھم گیا لیکن اب کچھ عرصے سے پھر یہ دلچسپی بڑھتی نظر آتی ہے۔

Deutschland Frankfurt Buchmesse 2008 Partnerland Türkei
ترکی کے بارے سیر و سیاحت بارے کتاب کا مطالعہ کرتی ایک خاتون: فائل فوٹوتصویر: AP

اِسی طرح کا ایک اور اشاعتی ادارہ اُونیون فَیرلاگ یا یونین پبلشرز تھا، جس نے اَسی کے عشرے کے وَسط میں مصری ادیب نجیب محفوظ کی پہلی کتاب جرمن میں ترجمہ کر کے شائع کی۔ سن 1988ء ہی میں محفوظ کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، جو عرب دُنیا سے یہ اعزاز حاصل کرنے والے اب تک واحد ادیب ہیں۔ تین سال میں یہ ادارہ نجیب محفوظ کی محض تین سو کتابیں فروخت کر پایا لیکن جس روز اِس مصری ادیب کے لئے نوبل انعام کا اعلان ہوا، اُس ایک روز میں محفوظ کی کتابیں تیس ہزار کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔

تاہم جرمن قارئین ایشیا یا افریقہ کی بجائے لاطینی امریکی ادب میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کولمبیا کے گابریئل گارشیا مارکیز یا پھر ازابیل آئیندے جیسے تخلیق کاروں کی کتابیں بے حد مقبول ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بھارتی اور پاکستانی ادیبوں کی انگریزی زبان میں لکھی جانے والی کتابیں بھی جرمن میں ترجمہ ہو کر شائع ہو رہی ہیں اور جرمن قارئین میں شوق سے پڑھی جا رہی ہیں۔