1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوڈ بینک کا خود پر عائد نسل پرستی کے الزامات کا دفاع

صائمہ حیدر
1 مارچ 2018

جرمنی میں ضرورت مند افراد کو کھانا فراہم کرنے والے ایک امدادی ادارے نے خود پر عائد نسل پرستی کے الزامات کا دفاع کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس جرمن فوڈ بینک نے کہا تھا کہ تارکین وطن کو خوراک فراہم نہیں کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/2tXUP
Deutschland Essener Tafel Graffiti
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Meissner

جرمن امدادی ادارے ’ایسنر ٹافل‘ کے بورڈ آف ٹرسٹی کے رکن پیٹر کریمر نے تنظیم پر عائد الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں گزشتہ برس سے سوچا جا رہا تھا اور اس کی وجہ ٹافل سے خوراک حاصل کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ تھا۔

کریمر کے مطابق ’ٹافل‘ کے لیے مقامی امداد کی کچھ حدود ہیں اور کھانے کے حصول کے لیے آنے والے افراد کی تعداد اس حد سے تجاوز کر گئی تھی۔

جرمن شہر ایسن میں قائم اس امدادی ادارے کی شاخ نے چند روز قبل کہا تھا کہ آئندہ سے خوراک صرف جرمن شہریت رکھنے والے افراد کو فراہم کی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہاں سےکھانا وصول کرنے والے زیادہ تر افراد تارکین وطن ہیں۔

 یہ بھی کہا گیا تھا کہ بعض عمر رسیدہ افراد اور سنگل والدین غیر ملکیوں کی موجودگی میں پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ مارل کے علاقے میں واقع ٹافل کی برانچ کے دفتر سے ایک بیان میں زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خوراک کی فراہمی صرف جرمن شہریوں کے لیے محدود کرنے کا فیصلہ نسل پرستی پر مبنی نہیں ہے۔

 برانچ کی سربراہ ریناٹے کامپے نے ادارے کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صرف کھانے کی سپلائی میں کمی کے باعث اٹھایا گیا ہے اور اس کا مہاجرین کے رویے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیال رہے کہ اس بابت جب جرمن نشریاتی ادارے آر ٹی ایل نے چانسلر میرکل سے سوال کیا گیا تھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ٹافل‘ کو نہیں چاہیے تھا کہ شہریت کو بنیاد بنا کر خوراک کی فراہمی کی بات کرے۔ تاہم میرکل نے یہ بھی کہا تھا کہ اس صورتحال سے فلاحی اداروں کو درپیش دباؤ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔