جرمن فوڈ بینک تنازعہ، میرکل بھی میدان میں آ گئیں
28 فروری 2018ضرورت مند افراد کو کھانا تقسیم کرنا والا ايک جرمن فوڈ بینک گزشتہ چند روز سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ ضرورت مند افراد میں مفت خوراک تقسیم کرنے والے ’ایسنر ٹافل‘ نامی اس این جی او نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ چونکہ یہاں فراہم کیے جانے والے کھانے سے مستفید ہونے والوں کی زیادہ تعداد مہاجرین پر مشتمل ہے لہذا آئندہ خوراک کی تقسیم سے پہلے لوگوں سے اُن کی شہریت کی بابت دریافت کیا جائے گا۔ ایسنر ٹافل نے مزيد مہاجرین کو خوراک کی فراہمی سے بھی انکار کر دیا تھا۔
یہ فوڈ بینک ہر ہفتے قریب چھ ہزار ضرورت مند افراد کو وہ بچا ہوا کھانا تقسیم کرتا ہے جو مختلف سپر مارکیٹوں اور ریستورانوں سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس امدادی ادارے نے دسمبر کے مہینے میں کہا تھا ایسے افراد کو بینک کی نئی رکنیت نہیں دی جائے گی جو جرمن شہری نہیں ہیں۔ جب گزشتہ ہفتے یہ معاملہ جرمن ذرائع ابلاغ پر آیا تو بہت سی فلاحی تنظیموں نے بینک کے اس موقف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ضرورت کے بجائے اس بنیاد پر مدد کی جاری ہے کہ ضرورت مند کا آبائی وطن کون سا ہے۔
گروپ کے سربراہ گیورگ سارٹور نے پچھلے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ اس ساری تنقید کا مقصد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سارٹور نے کہا کہ یہ فیصلہ ایسی اطلاعات کے بعد کیا گیا تھا کہ بوڑھی خواتین مہاجرین کی جانب سے دھکم پیل کے واقعات سے پریشان ہیں۔
گیورگ سارٹور کی جانب سے یہ بیان آیا ہی تھا کہ ہفتے کے اختتام پر فوڈ بینک کی دیواروں پر’ نازی‘ لفظ لکھا ہوا دیکھا گیا۔ جرمنی میں ’نازی‘ لفظ کا استعمال اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
اس بابت جب جرمن نشریاتی ادارے آر ٹی ایل نے چانسلر میرکل سے سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ٹافل‘ کو نہیں چاہیے تھا کہ شہریت کو بنیاد بنا کر خوراک کی فراہمی کی بات کرے۔ تاہم میرکل نے یہ بھی کہا کہ اس صورتحال سے فلاحی اداروں کو درپیش دباؤ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
غربت کے موضوع کے ماہر ڈاکٹر کرسٹوف بٹر ویگے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دباؤ کی ذمہ دار بھی حکومتی پالیسی ہی ہے۔ بُٹر ویگے کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی میں رہنے والا کوئی شخص بھوکا نہ رہے، اس کی ذمہ داری بھی حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے۔