جرمن زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟
19 جنوری 2016برلن میں ’ہم تنگ آ چکے ہیں‘ کے نعرے کے ساتھ ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے مارچ کیا اور مطالبہ تھا ملک کے زرعی نظام میں مکمل تبدیلیوں کا۔
ماحولیات، صارفین اور جانوروں اور زراعت کے تحفظ سے جڑے پچاس سے زائد گروپوں کے ایک بڑے اتحاد نے اس مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ احتجاج برلن میں ’ہفتہء سبز‘ نامی زرعی تجارتی میلے کے موقع پر رکھا گیا ہے۔ یہ میلہ 24 جنوری تک جاری ہے۔
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے، جہاں گزشتہ چند دہائیوں میں زراعت کا شعبہ ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوا ہے۔ یورپ کے دل میں واقع ملک جرمنی میں زراعت زیادہ مشکل ہو گئی ہے، کیوں کہ مصنوعی کھادوں اور طفیلیوں کو مارنے کے لیے چھڑکے جانے والے کیمیائی مادوں نے صورت حال کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں چھوٹے کسان ایسی صورت حال میں زراعت مکمل طور پر چھوڑتے دکھائی دیے ہیں۔
مویشیوں کے قدرتی فارمز کی بجائے اب گوشت بڑی بڑی فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے اور ڈبوں یا پیکٹوں میں بند ملتا ہے۔ ان فیکٹریوں میں مشینی طریقے سے ہر روز لاکھوں جانور کاٹے جاتے ہیں۔ تاہم جرمن باشندوں کی جانب سے اس تیز تر ہوتی صنعتی سرگرمیوں پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
جرمن شہریوں کا یہ بھی کہنا ہےکہ جینیاتی تبدیلیوں کی حامل خوراک، قدرتی جنگلات کاٹ کر ان کی جگہ مویشیوں کی غذا حاصل کرنے کے لیے زمین کا حصول، کاٹے جانے والے جانوروں سے برا سلوک اور ان جانوروں سے زیادہ گوشت کے حصول کے لیے اینٹی بائیوٹکس یا جراثم کش ادویات کا بے دریغ استعمال، ہر حالت میں روکے جانے کی ضرورت ہے۔
ایسی خوراک کے استعمال سے انسانی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کی بابت آگاہی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اسی کا مظہر ان مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت تھی۔ ابھی جرمنی میں ہوئے تحقیقی مطالعات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ صنعتی زرعی فارمز سے حاصل ہونے والی سبزیوں اور پھلوں میں بھی زہریلے کیمیائی مادے اور جراثم کش ادویات کے کچھ نشانات بدستور موجود رہتے ہیں اور انسانی صحت ان سے متاثر ہوتی ہے۔