1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن الیکشن میں سیاسی پارٹیاں تارکین وطن کی حمایت کے لیے کوشاں

عابد حسین14 ستمبر 2013

جرمنی میں عام انتخابات میں اب ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ ووٹنگ اگلے اتوار کے روز ہو گی۔ ان دنوں تمام سیاسی جماعتیں تارکین وطن کے ووٹوں کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/19hWY
تصویر: Sean Gallup/Getty Images

جرمنی کی موجودہ چانسلر انگیلا میرکل نے تقریباً تین سال قبل کہا تھا کہ ان کے ملک میں کثیرالنسلی معاشرت کے قیام کو ناکامی کا سامنا ہے اور اس بیان کو جرمنی میں آباد تارکین وطن نے پسند نہیں کیا تھا لیکن اب جوں جوں انتخابات قر یب آ رہے ہیں میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی تارکین وطن کے ووٹوں کے حصول کی کوشش میں دکھائی دیتی ہیں۔ جرمنی میں کُل رجسٹرڈ ووٹرز میں تارکین وطن کے ووٹوں کا تناسب دس فیصد بنتا ہے۔ ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا یہ تناسب کسی اہمیت کا حامل ہے یا نہیں۔

Merkel Wahlplakat in Berlin
جرمنی میں عام انتخابات کے موقع پر انگیلا میرکل کا ایک پوسٹرتصویر: Reuters

انگیلا میرکل کو پیئر اشٹائن برُوک کے ساتھ ٹیلی وژن مباحثے کے دوران اس وقت پریشانی کا سامنا ہوا جب ایک چینی نژاد ماہرِ تعمیرات پروفیسر وِلفریڈ وانگ نے میرکل کے تین سالہ پرانے بیان کے ریفرنس میں کہا کہ ان کی تقریر سے قبل وہ خود کو ایک جرمن تصور کرتے تھے لیکن اُس بیان کے بعد وہ خود کو دوبارہ چینی محسوس کرتے ہیں۔ میرکل نے پروفیسر وانگ کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کا مقصد کسی کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا تھا بلکہ ایک زبان بولتے ہوئے ان کے ملک کی ثقافت میں دوسرے معاشروں کا ہر فرد ضم ہوتے ہوئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن کا وسطی علاقے کروئٹس برگ کو جرمنی میں آباد تیس لاکھ ترک آبادی کا ایک بڑا گڑھ خیال کیا جاتا ہے۔ برلن کے کرؤٹس برگ میں آباد ترک جرمن آبادی بھی اس صورت حال سے آگاہ ہے۔ کروئٹس برگ کے ایک نوجوان کا خیال ہے کہ وہ ایس پی ڈی کو یقینی طور پر ووٹ ڈالے گا کیونکہ روایتی طور پر یہ ورکنگ کلاس کی جماعت ہے۔

Partei Bündnis 90/Die Grünen Jürgen Trittin Katrin Goering-Eckardt
گرینز پارٹی کا ایک بینرتصویر: Sean Gallup/Getty Images

اسی بستی میں کچھ اور نوجوان ماحول دوست سیاسی جماعت گرینز کی جانب مائل دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی میں آباد ہونے والی ترک خاندانوں کی دوسری نسل سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی اور گرینز کے دوہری شہریت رکھنے کے وعدے سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ دوہری شہریت کی مخالفت میں میرکل کی کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین ہے۔

بعض جائزوں کے مطابق جرمنی میں آباد تارکین وطن کی نصف آبادی کے پاس ووٹ دینے کا حق ہے اور جوں جوں نئی نسل بالغ ہوتی جا رہی ہے، اس میں مسلسل تبدیلی آ رہی ہے۔ اِس وقت جرمنی میں دس برس سے کم عمر کا ہر تیسرا بچہ جرمن تارکین وطن سے تعلق رکھتا ہے۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ آبادی میں تبدیلی کے تناظر میں تارکین وطن کے ووٹ مستقبل کے انتخابات میں کلیدی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم برٹلزمین فاؤنڈیشن کے سربراہ اورکان کوزے مین کے مطابق جرمن سیاسی جماعتوں نے تارکین وطن کے ووٹوں کی اہمیت کا احساس کرنا شروع کر دیا ہے۔ ترک ٹی وی پر اپنے انٹرویو میں جرمن چانسلر میرکل نے بھی انضمام کے عمل کو مزید تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے۔