1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اسکول میں شامی مہاجر خاتون کی بطور معلمہ تقرری

صائمہ حیدر
11 فروری 2018

جرمن اسکول میں بطور معلمہ کام کرنے والی شامی مہاجر خاتون پناہ گزین اساتذہ کے پہلے تربیتی پروگرام میں کامیابی حاصل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جرمن اسکولوں میں پڑھانے کے علاوہ بھی اساتذہ کے کئی فرائض ہیں۔

https://p.dw.com/p/2sTNE
Deutschland syrische Lehrerin Hend Al Khabbaz in Fürstenwalde
جرمنی کی طرف مہاجرت سے قبل اپنے ملک شام میں ہند الخباز انگریزی زبان کی ٹیچر تھیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

پینتیس سالہ معاون معلمہ ہند الخباز کے مطابق جرمن اسکول بچوں کے لیے تو بہت اچھے ہیں لیکن یہاں اساتذہ کو بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ الخباز کا کہنا ہے کہ اساتذہ یہاں محض درس وتدریس ہی کا فریضہ انجام نہیں دیتے بلکہ انتظامی اُمور اور دستاویزات کی ترتیب دہی بھی اُن کے فرائض میں شامل ہے۔

الخباز تین سال قبل شام سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچی تھیں۔ اس شامی مہاجر خاتون نے جرمنی آمد کے بعد جرمن زبان بھی سیکھی ہے۔ جرمنی کی طرف مہاجرت سے قبل اپنے ملک شام میں ہند الخباز انگریزی زبان کی ٹیچر تھیں۔

الخباز ’سگمنڈ یاہن‘ پرائمری اسکول میں کام کرتی ہیں جو جرمن دارالحکومت برلن سے ساٹھ کلو میٹر دور ’فوئرس‌ٹن والڈے‘ نامی قصبے میں واقع ہے۔ جرمنی نے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد سے ان تارکین وطن کے جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ الخباز  کی خوش قسمتی تھی کہ وہ انضمام کے اس عمل کا حصہ بنیں اور آج اُنہیں جرمنی میں ایک کُل وقتی روزگار حاصل ہر گیا ہے۔

ہند الخباز پوسٹڈم یونیورسٹی کے پناہ گزین اساتذہ کے پہلے گریجویٹ افراد میں سے ایک ہیں۔ یہ ریفیوجی ٹیچر پروگرام مہاجرین کو جرمن اسکولوں کے نظام میں شامل کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ سن 2016 میں اس پروگرام کے لیے دی جانے والی سات سو درخواستوں میں سے پچاسی فیصد درخواستیں شامی مہاجرین کی جانب سے دی گئی تھیں۔

Deutschland syrische Lehrerin Hend Al Khabbaz in Fürstenwalde
تصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

سگمنڈ یاہن پرائمری اسکول میں زیر تدریس بچوں میں شامی اور دیگر مہاجر بچے بھی شامل ہیں۔ اسکول کی پرنسپل اینس ٹِش کا کہنا ہے کہ مہاجر بچوں کو سائنسی مضامین جیسے بیالوجی اور فزکس کی مخصوص تراکیب سیکھنے کے لیے اضافی محنت کرنی پڑتی ہے۔

سگمنڈ یاہن اسکول میں ساڑھے تین سو بچے زیر تعلیم ہیں جن میں سے بانوے مہاجر بچے بھی ہیں۔ ہند الخباز کہتی ہیں کہ درس و تدریس کے اپنے پیشے کی طرف واپس لوٹنے میں سب سے بڑی رکاوٹ جرمن زبان کا سیکھنا تھا کیونکہ پناہ گزین اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام کا ایک بڑا حصہ جرمن زبان ہی میں تھا۔

 یہی وجہ ہے سن 2017 میں چھبیس مہاجرین کے گریجویٹ کرنے کے باوجود بھی صرف بارہ ہی اسکولوں میں ملازمت حاصل کر پائے ہیں۔ باقی پناہ گزین افراد کو جرمن زبان کا امتحان دوبارہ دینا ہو گا۔