1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک‘

29 ستمبر 2016

پاکستانی جیلوں کے قیدیوں میں بہت بڑی اکثریت مردوں کی ہے۔ خواتین قیدیوں کی تعداد مقابلتاﹰ کافی کم ہوتی ہے جنہیں مردوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ رفعت انعام نامی ایک سزا یافتہ خاتون کے مطابق جیل کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔

https://p.dw.com/p/2Qjps
Pakistan Frauen im Gefängnis
اڈیالہ جیل میں سات سالہ قید کے بعد رہائی پانے والی خاتون حکمت یارتصویر: I. Jabeen

رفعت انعام کو غیر قانونی منشیات کے ایک مقدمے میں اپنے شوہر کے ساتھ جیل جانا پڑا تھا۔ انہیں ایک عدالت نے تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ پھر رفعت کا دفاع کرتے ہوئے خواتین کی قانونی مدد کرنے والی ایک تنظیم ویمن ایڈ ٹرسٹ یا WAT نے ان کا مقدمہ لڑا اور جیت بھی لیا۔ مجبور خواتین کے معاون اسی امدادی ٹرسٹ نے جیل سے رہائی کے بعد رفعت انعام کو اپنے ہاں ملازمت بھی دے دی تھی۔ آج اس خاتون کو اسلام آباد میں اس ٹرسٹ کے صدر دفتر میں کام کرتے ہوئے نو برس ہو گئے ہیں۔

جیل کی زندگی، ایک دن بھی بہت بھاری

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ایک خاتون قیدی کے طور پر رفعت انعام کی زندگی کیسی تھی، ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جیل کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ محض ایک دن بھی بہت بھاری ہوتا ہے۔‘‘ رفعت نے جیل میں اپنی زندگی کے معمولات اور تجربات بیان کرتے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جب میں جیل میں تھی، تو ایک بڑے کمرے میں 60خواتین ہوتی تھیں۔ کمرے میں بجلی کے صرف دو پنکھے تھے اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی کی فراہمی اکثر معطل رہتی تھی۔ ساٹھ خواتین کے لیے بیت الخلا صرف ایک تھا اور وہاں پانی بھی پورا پورا دن بند رہتا تھا۔‘‘

رفعت انعام نے نو برس پہلے تک کی اپنی زندگی کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’ہر عورت کو بیٹھنے کے لیے صرف ڈیڑھ فٹ تک جگہ میسر تھی۔ آپ نہ جی سکتے تھے، نہ مر سکتے تھے۔ اگر کوئی خاتون بیمار ہو جاتی، تو درد سے تڑپتے رہیے، کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ اگر کوئی خاتون انتہائی حد تک بیمار یا زخمی ہو جاتی، تو اسے کئی کئی گھنٹوں بعد ہسپتال لے جایا جاتا تھا، جہاں علاج معالجے کی بھی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی تھی۔‘‘

Pakistan Frauen im Gefängnis
رفعت انعام جو نو سال سے خود بھی ویمن ایڈ ٹرسٹ کے لیے کام کر رہی ہیںتصویر: I. Jabeen

بدلی ہوئی صورت حال

اڈیالہ جیل کے زنانہ حصے کی یہ صورت حال اب بہت بدل چکی ہے۔ وہاں اب قیدیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کے الیکٹرک کولر لگے ہیں۔ ہر قیدی کو ایک بستر میسر ہے۔ باورچی خانے میں باقاعدہ چولہے نصب ہیں۔ ایک لائبریری بھی بنا دی گئی ہے اور ایک سلائی اسکول کے علاوہ اپنی قیدی ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کے لیے ایک کنڈرگارڈن بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جیل میں عورتوں کے لیے ایک ہیلتھ ہونٹ بھی قائم ہو چکا ہے، جہاں چوبیس گھنٹے ایک لیڈی ڈاکٹر موجود ہوتی ہے۔

ویمن ایڈ ٹرسٹ

یہ بہتری محکہ جیل خانہ جات کے تعاون اور کوششوں کے ساتھ ساتھ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ رفعت انعام نے، جن کے قید کے دوران جیل انتظامیہ کی طرف سے چائے میں مہنگی چینی کے بجائے سستی اسکرین کے استعمال کی وجہ سے دانت خراب ہو چکے ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنی سزائے قید کے دوران ڈبلیو اے ٹی کی طرف سے دوسری قیدی خواتین کو سلائی کڑھائی سکھانے کا کام بھی کرتی رہی ہیں، جس کے انہیں ماہانہ ایک ہزار روپے ملتے تھے۔

’’میں اور میری طرح دیگر قیدی خواتین لیڈیز پرس اور دوسرے ہینڈی کرافٹس بھی بناتی تھیں، جن کے ہمیں فی عدد ڈھائی سو روپے تک بھی مل جاتے تھے۔ اس طرح بہت سی ایسی قیدی عورتیں اپنی مالی ضروریات پوری کر لیتی تھیں، جن کے اہل خانہ ان کی کوئی مالی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔‘‘

Pakistan Frauen im Gefängnis
بشریٰ حیدرتصویر: I. Jabeen

خوشیاں بانٹنے کی خواہش

اس بڑی تبدیلی میں ویمن ایڈ ٹرسٹ نے اپنا کردار کیسے ادا کیا اور اس تنظیم کے مقاصد کیا تھے؟ اس بارے میں WAT سے گزشتہ 18 برسوں سے مالیاتی امور کی انچارج کے طور پر وابستہ بشریٰ حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ٹرسٹ کا قیام مشترکہ سوچ کی حامل چند ایسی خواتین کی وجہ سے عمل میں آیا، جو معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتی تھیں۔

بشریٰ حیدر کے مطابق، ’’جذبہ یہ تھا کہ جو نعمتیں اور خوشیاں ہمارے پاس ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ بانٹی جائیں۔ ہم سات خواتین نے مل کر اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ سبھی مختلف شعبوں سے منسلک تھیں۔ بہت تحقیق کے بعد ہمیں پتہ یہ چلا کہ تب تک کوئی بھی جیلوں میں قید مصیبت زدہ خواتین کے لیے کچھ نہیں کر رہا تھا۔ پھر ہم نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ قیدی خواتین کے مسائل جاننے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کی۔ معاشرے میں مجموعی طور پر خواتین کو ان کا صحیح مقام دلوانا ہی ہماری کوششوں کا مقصد اور ہمارا نصب العین ہے۔‘‘

جملہ مالی وسائل مقامی ذرائع سے

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ڈبلیو اے ٹی یا ’وَیٹ‘ کی رجسٹریشن 1994 میں ہوئی لیکن عملی سرگرمیوں کا آغاز 13 اپریل 1997 سے ہوا۔ پہلا پراجیکٹ راولپنڈی کی سینٹرل جیل اڈیالہ میں شروع کیا گیا۔ اس تنظیم کے ارکان کی تعداد 40 کے قریب ہے، جن میں سے زیادہ تر رضا کار ہیں اور ٹرسٹ کی فنڈنگ بھی پاکستان کے اندر سے ہی کی جاتی ہے۔

شاہینہ خان نے اپنے ادارے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا مقصد خاندان جیسے بنیادی ادارے کی بقا اور بھلائی کے لیے جدوجہد کرنا اور ایسی ہر جدوجہد میں تعاون کرنا ہے۔ قانونی اور سماجی مشاورت کی فراہمی، عورتوں اور بچوں کی فلاح کے منصوبے، دستکاری اور فنی مہارت کے پراجیکٹ، خود کفالتی اسکیموں کا آغاز اور ایسے تربیتی پروگراموں کا اہتمام جن کے ذریعے معاشرے میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق شعور میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ سوشل ریسرچ، اعداد و شمار جمع کرنا، چھوٹی سطح پر تعلیمی اور تربیتی پبلیکیشنز اور مختلف تربیتی پروگرام، ان جملہ مقاصد کے ساتھ ہم صوبہ پنجاب کی تین جیلوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

Pakistan Frauen im Gefängnis
تصویر: I. Jabeen
Pakistan Frauen im Gefängnis
قیدی خواتین کے تیار کردہ لیڈیز پرس اور ملبوساتتصویر: I. Jabeen

ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ایسے ہی منصوبوں کی تقلید کرتے ہوئے اب پنجاب کی صوبائی حکومت خود بھی متعدد جیلوں میں مختلف پراجیکٹ شروع کر رہی ہے اور کئی منصوبوں میں تو وہ اس ٹرسٹ کی مدد پر بھی انحصار کر رہی ہے۔

خواتین قیدیوں سے ’تعلیمی ناانصافی‘

خواتین کے اسی امدادی ٹرسٹ کی طرف سے سوشل ورکر اور ماہر نفسیات فوزیہ خالد گزشتہ کئی برسوں سے اڈیالہ جیل میں ایک ایموشنل سپورٹ پروگرام بھی چلا رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جیل میں ہمارے کنڈر گارڈن میں بچوں کی تعداد 40 کے قریب ہے۔ خواتین کی نفسیاتی صحت اور مجموعی حالت بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ لیکن ایک چیز کی شدید کمی ہے اور وہ ہے قیدی خواتین کے ساتھ تعلیمی انصاف۔‘‘

فوزیہ خالد نے بتایا کہ بہت کوشش کے بعد جو قیدی عورتیں تعلیم حاصل کر لیتی ہیں، ڈگری کے حصول کے لیے اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ان کے داخلے ہی قبول نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا، ’’قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ مرد قیدی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں جیلوں میں رہتے ہوئے، تو عورتوں کے لیے ایسا کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا؟‘‘

Pakistan Frauen im Gefängnis
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خانتصویر: I. Jabeen

انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود کئی بار اوپن یونیورسٹی جا کر کوشش کی لیکن یونیورسٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آ رہا۔ فوزیہ خالد نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو خواتین قیدیوں کے ساتھ اس تعلیمی ناانصافی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عام سماجی تاثر یہ بھی ہے کہ جیل چلی جانے والی خواتین پھر کبھی نہیں سدھرتیں، جو بالکل غلط ہے۔

’معاشرہ معاف نہیں کرتا‘

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے قیدی خواتین کی کس کس طرح مدد کی جا رہی ہے، اس کی ایک مثال حکمت یار نامی خاتون بھی ہیں۔ حکمت یار پر اپنے شوہر کے قتل کا مقدمہ چلا تو انہیں اور ان کے تین بیٹوں کو، جو شریک ملزم تھے، سات سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ حکمت یار نے ڈی ڈبلیو کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا، ’’اس ٹرسٹ نے گھر میں اکیلی رہ جانے والی میری تین بیٹیوں کو آشیانہ نامی ادارے میں پناہ دلوائی۔ میری قانونی مدد کی اور اب جیل سے باہر بھی زندگی گزارنے میں میری معاونت کی جا رہی ہے۔‘‘

حکمت یار نے پاکستان میں اجتماعی معاشرتی رویوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’گناہ اور غلطی تو سب سے ہو ہی جاتے ہیں۔ لیکن یہ معاشرہ جیل میں قید کی سزا ختم ہو جانے کے بعد بھی پوری زندگی کے لیے سزا دیتا ہے۔ جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک۔ معاشرہ کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘