ججوں کی تقرری کا تنازعہ: صدارتی حکم نامہ واپس
17 فروری 2010اس معاملے میں پاکستانی سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو از خود نوٹس لیتے ہوئے چیلنج کر دیا تھا اور عدالتی کارروائی کے لئے اٹھارہ فروری کی تاریخ طے کی گئی تھی۔ اس معاملے کے باعث ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں مزید شدت آ گئی تھی۔
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بدھ کی شام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات کے بعد یہ صدارتی حکم نامہ واپس لینے کا اعلان کیا۔ گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ قوم اور سیاسی قوتوں کے بہترین مفاد میں ہے اور اس سے جمہوری نظام کو استحکام ملے گا۔ بہت سے معاشی مسائل اور سلامتی کی ابتر صورتحال کے باعث پاکستان میں سماجی زندگی پہلے سے ہی شدید متاثر نظر آ رہی تھی۔ اس دوران ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر سکنے والے اس عدالتی تنازعے نے بہت سے نئے لیکن سنگین خدشات کو جنم دیا تھا۔
وزیرِاعظم گیلانی کے بقول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی تجویز کے مطابق نئے نوٹیفیکیشن کے تحت جسٹس ثاقب نثارکو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جا رہا ہے جبکہ خواجہ شریف بدستور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سینیئر جج، جسٹس ثاقب نثار کے علاوہ جسٹس آصف کھوسہ کو بھی سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس تنازعے کے باعث پیدا شدہ سیاسی کشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم گیلانی نے کہا: ’’اب معاملات مکمل طور پر طے ہوگئے ہیں۔‘‘ گزشتہ ویک اینڈ پر سپریم کورٹ نے صدر زرداری کی جانب سے ججوں کی تقرری کے ایک نوٹیفیکیشن کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے چیلنج کر دیا تھا جبکہ مسلم لیگ نون کے قائد اور ملکی اپوزیشن کے ایک اہم رہنما نواز شریف نے صدارتی حکم نامے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ’’جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ‘‘ صدر آصف زرداری ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک