1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان: ’کیفے‘ کی آڑ میں کم سن بچوں کی جسم فروشی کی صنعت

Julian Ryall ⁄ امجد علی20 جولائی 2015

یہ کیفے ’جوشی کوسائی‘ کہلاتے ہیں اور ان کی آڑ میں صرف جاپانی دارالحکومت ٹوکیو ہی میں ہزاروں اسکول طالبات کو پیسے کے لیے اپنا جسم بیچنے پر مائل کیا جاتا ہے۔ ٹوکیو سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار جولین رائل کی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/1G1SS
تصویر: T. Kitamura/AFP/Getty Images

ٹوکیو کا علاقہ ’اکی ہابارا‘ پوری دنیا میں جانا پہچانا ہے کیونکہ یہ جدید ترین الیکٹرانک آلات کا مرکز ہے اور وہاں نیون لائٹس کی چمک دمک میں ہمہ وقت خریداروں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ ’اکی ہابارا‘ کئی بلاکس پر مشتمل ہے اور کئی اطراف میں پھیلا ہوا ہے۔

یہاں گھومنے پھرنے والے سبھی لوگ کسی جدید الیکٹرانک آلے کی تلاش میں نہیں ہیں بلکہ کسی اور چیز کے خریدار ہیں۔کوئی ایک عشرہ پہلے اسی علاقے میں ایک نیا کاروبار شروع ہوا۔

آج کل الیکٹرانک آلات کی دکانوں کے ساتھ ساتھ واقع تنگ گلیوں میں ہر چند میٹر کے بعد آپ کو کم سن لڑکیاں نظر آئیں گی، جو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے مرد حضرات کو ترغیب دیتی ہیں کہ وہ ساتھ ہی بنی سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر ’کیفے‘ میں جا سکتے ہیں۔

اسکول کی طالبات کی یونیفارمز

بظاہر اس طرح کے کسی ’کیفے‘ میں یہ لڑکیاں گاہکوں کو کیک اور کافی سرو کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی لڑکیوں نے جاپانی اسکول گرلز کی یونیفارمز سے ملتا جلتا لباس پہن رکھا ہوتا ہے اور اُن کا اسکرٹ بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ دیگر لڑکیاں ‘مانگا‘ کارٹون سیریز میں نظر آنے والی لڑکیوں کی طرح کے ہیجان انگیز لباس میں ہوتی ہیں۔

ان لڑکیوں کے پیچھے کچھ مرد کھڑے نظر آتے ہیں، جو اِن لڑکیوں کی ایک ایک حرکت کی نگرانی کرتےہیں۔ ان مردوں کا کھانے پینے کے بزنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اُن کی دلچسپی ایک اور کاروبار میں ہوتی ہے، جو کہیں زیادہ پُر کشش آمدنی دیتا ہے۔ ان لڑکیوں کو اپنے گاہکوں کے ساتھ جا کر گھومنے پھرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

تیس منٹ کی سیر و تفریح کے لیے یہ لڑکیاں پانچ ہزار ین (تقریباً سینتیس یورو) لیتی ہیں، جس میں سے آدھی رقم اُنہیں اپنی کیفے شاپ کو دینا ہوتی ہے۔ بظاہر اس سارے قصے میں کہیں جنسی تعلق قائم نہیں ہوتا لیکن رفتہ رفتہ یہ لڑکیاں خود بخود اپنے گاہکوں کے ساتھ معاملات طے کرنے لگ جاتی ہیں اور بات محض ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سیر کرنے سے کہیں آگے نکل جاتی ہے۔

Japan Sexindustrie in Tokio
جاپانی دارالحکومت ٹوکیومیں ہزاروں اسکول طالبات کو پیسے کے لیے اپنا جسم بیچنے پر مائل کیا جاتا ہےتصویر: Y. Tsuno/AFP/Getty Images

جسم فروشی کرنے والے بچے

یُومینو نیتو ایسی ہی ایک جاپانی لڑکی ہے، جو کافی عرصے تک اس ’بزنس‘ سے وابستہ رہنے کے بعد اب توبہ کر چکی ہے۔ اُس نے بتایا کہ ’جہاں تک کم سن بچوں کی جسم فروشی کے مسئلے کو سمجھنے کا تعلق ہے، جاپان کوئی ترقی یافتہ قوم نہیں ہے‘۔ نیتو کے مطابق جاپان میں JK یا ’جوشی کوسائی‘ کے کاروبار کو محض فیشن یا پھر تفریح کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نیتو کے مطابق تشویشناک بات یہ ہے کہ معاشرے اور ذرائع ابلاغ کی جانب سےبھی اس سارے جنسی کاروبار کو نہ صرف آسانی سے برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ اسے اور بھی ہوا دی جا رہی ہے۔

ایسے میں اُن لڑکیوں کے لیے عملاً کوئی مدد نہیں ہے، جنہیں کسی بھی مرحلے پر یہ احساس ہو جائے کہ وہ خطرے میں ہیں۔ نیتو نے ایسی لڑکیوں کی مدد کے لے ایک این جی او قائم کی ہے۔ نیتو کے مطابق ’عام طور پر جاپانی معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس بزنس میں آنے والی لڑکی کا چال چلن درست نہیں ہے یا یہ کہ اُس کے والدین اُسے مناسب تربیت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ایسے میں لڑکی کو خریدنے والے شخص کا کوئی قصور نہیں ہے۔

ایجنٹوں کے لیے آسان شکار

یُومینو نیتو کے مطابق ’زیادہ تر لڑکیاں آسان شکار ثابت ہوتی ہیں کیونکہ اُن میں سے کچھ ذہنی طور پر معذور ہوتی ہیں، کچھ دیگر اپنی شخصیت کے حوالے سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں، کئی ایسی ہوتی ہیں، جو خود کُشی کی کوشش کر چکی ہوتی ہیں‘۔

ان میں سے تیس فیصد کے قریب لڑکیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، جو محض اپنے اسکول کے لنچ کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اضافی جاب کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اور پھر اس کاروبار کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ دیگر لڑکیوں کا تعلق ایسے کنبوں سے ہوتا ہے، جن میں ماں باپ کے درمیان علیحدگی ہو چکی ہوتی ہے یا پھر اُنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے۔ ایجنٹ ان لڑکیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اُنہیں اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔

گزشتہ ایک عشرے کے دوران جاپانی ٹیلی وژن پر بھی کم سن لڑکیوں کے چہرے زیادہ نظر آنے لگے ہیں اور ایسے پروگراموں کی شرح بڑھ گئی ہے، جن میں کم سن لڑکیوں کو مختصر سے مختصر لباس میں دکھایا جاتا ہے۔