جاپان: خوفناک سونامی کو آئے سات برس بيت گئے
11 مارچ 2018گیارہ مارچ سن 2011 میں جو زلزلہ آیا تھا، اُس کی شدت ریکٹر اسکیل پر نو ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی حصے کی بعض ساحلی علاقوں کو پوری طرح تاراج کر دیا تھا۔ اس سونامی کی لپیٹ میں آ کر اٹھارہ ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ جاپان میں سات برس قبل آنے والی سونامی اور اس کے نتيجے ميں ہونے والے جانی نقصان کے لیے اتوار گیارہ مارچ سن 2018 کوخصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
فوکوشیما حادثے کے چھ سال، خواتین اور بچے سب سے زیاہ متاثر
سونامی جاپانی جانوروں کو ہزاروں میل بہا کر امریکا لے آئی
سونامی کو پانچ برس ہو گئے، جاپان میں آنسو اور دعائیں
سونامی سے متاثرہ بچوں کو نفسیاتی بیماریوں کا سامنا
ان تقریبات میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، دوستوں اور احباب نے انہیں یاد کیا۔ اتوار کے دن ٹھیک اُس وقت خصوصی سائرن بجائے گئے، جس وقت سونامی نے شمال مشرقی جاپانی ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔
یہ سائرن دوپہر دو بج کر چھیالیس منٹ پر بجائے گئے۔ سائرن بجانے کے دوران جاپانی عوام نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا۔
اس سونامی کی وجہ سے دائیچی جوہری پلانٹ کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا اور اُس کی تابکاری شعاعوں سے بچنے کے لیے کئی قریبی قصبے ویران ہو چکے ہیں اور اُن میں آج بھی ہُو کا عالم ہے۔ جاپانی حکومت نے متعدد کوششوں کے بعد دائیچی پلانٹ سے بہنے والے تابکاری مواد کے کنٹرول کیا تھا۔ اس عمل ميں ٹوکیو حکومت کو بین الاقوامی تعاون بھی حاصل تھا۔ ماہرین کے مطابق تابکاری مواد کے اثرات کو ختم ہونے میں ابھی تیس سے چالیس سال مزيد درکار ہیں۔
اس دن کی مناسبت سے دارالحکومت ٹوکیو میں منعقد کی جانے والی سوگوار تقریب میں جاپانی وزیراعظم شینزُو آبے بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ اُن کی حکومت بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کی بحالی اور تباہ حال علاقوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس زلزلے اور سونامی کی وجہ سے ابھی تک ستر ہزار افراد بے گھری کا شکار ہیں۔ جوہری پلانٹ کے قریبی علاقوں سے اجڑنے والے خاندانوں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہاں اب بھی تابکاری اثرات موجود ہیں۔
ٹوکیو ميں منعقدہ تقریب میں جاپانی بادشاہ اکیہیٹو کے بیٹے شہزادہ آکیشینو نے اپنی تقریر میں اس امید کا اظہار کیا کہ سونامی اور زلزلوں کے حوالے سے جو معلومات اور آگہی مل چکی ہے، اب اُس کے نتیجے میں توقع ہے کہ عام لوگوں کا مستقبل محفوظ رہے گا۔