1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس کے نوجوان جہادی

امتیاز احمد27 جولائی 2015

تیونس کے پانچ ہزار سے زائد نوجوان القاعدہ اور داعش ایسی جہادی تنظیموں کی صفوں میں شامل ہیں۔ آخر تیونس کے نوجوانوں کے لیے ایسی انتہاپسند تنظیمیں باعثِ کشش کیوں ہیں؟

https://p.dw.com/p/1G5Ts
Propagandavideo IS Balkan
تصویر: Propagandavideo Islamic State via Al Hayat/YouTube

تیونس کے اقبال بن رجب کا کپکپاتی ہوئی آواز میں کہنا تھا، ’’اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ رات اپنے ایک دوست کے ہاں گزارے گا لیکن اگلے دن اس نے مجھے ایس ایم ایس کی کہ وہ شام پہنچ چکا ہے۔‘‘ اقبال آج بھی مارچ 2013ء کا وہ دن نہیں بھولا، جس دن اس کا بھائی حمزہ گھر سے غائب ہو گیا تھا۔ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم حمزہ نے القاعدہ کے حامی گروپ النصرہ فرنٹ میں شمولیت اختیار کی اور وہ براستہ لیبیا شام پہنچا تھا۔ مبینہ طور پر حمزہ نے ان کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پروپیگنڈے کا خیال رکھنا تھا۔

لیکن حمزہ جسمانی طور پر معذور ہے اور صرف وہیل چیئر کے ذریعے ہی نقل و حرکت کر سکتا ہے۔ اس کے بڑے بھائی اقبال کا کہنا تھا، ’’ان کے پاس تو وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اس کی دیکھ بھال کر سکتے، میرے خیال میں وہ میرے بھائی کو ایک بم حملے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد حمزہ کا خاندان اسے واپس تیونس لانے میں کامیاب رہا۔ بعد ازاں اقبال نے ایک تنظیم قائم کی، جس کے مقصد تیونس کے ان نوجوانوں کو واپس لانا ہے، جو جہاد کے لیے داعش اور القاعدہ ایسی تنظیموں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس تنظیم کا مقصد مزید نوجوانوں کو ایسی جہادی تنظیموں میں شامل ہونے سے روکنا بھی ہے۔

انقلاب کے بعد بنیاد پرستی

اقوم متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تیونس کے پانچ ہزار سے زائد نوجوان بیرون ملک جہادی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سن 1990 کی دہائی میں بھی تیونس کے جہادی افغانستان اور چیچنیا میں لڑتے رہے ہیں لیکن ان میں اضافہ ملک میں 2011ء میں آنے والے انقلاب کے بعد ہوا ہے۔

تاریخ دان اور سکیورٹی امور کے ماہر فیصل شریف کے مطابق بنیادی طور پر ایسی دو وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے تیونس کے جہادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان دونوں کا تعلق ملکی سیاسی انقلاب سے ہے۔ بہت سے نوجوان عرب بہار کے نام سے آنے والے انقلاب کو ان عرب ملکوں تک پھیلانا چاہتے تھے، جہاں ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوپایا تھا۔ دوسری جانب خود انتہاپسندوں نے بھی تیونس میں بھرتیوں کا کام تیز کر دیا تھا۔ بہت سے جہادی انقلاب سے پہلے جیل میں تھے لیکن وہ انقلاب کے بعد سیاسی قیدیوں کے ہمراہ آزاد ہو گئے اور انہوں نے دوبارہ نوجوانوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔

شریف کے مطابق تیونس کی حکومت بھی جہادیوں کے پروپیگنڈا کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ مساجد کو کنٹرول کرنے کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہے جبکہ جہادی گروپوں کہ طرف سے پیش کی جانے والی پیسے کی کشش بھی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر جنگجو کے بدلے بھرتی کرنے والے شخص کو تین ہزار سے دس ہزار ڈالر کے درمیان رقم ادا کی جاتی ہے۔

تیونس حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ستمبر میں ایک اعلیٰ سطحی مکالمے کا اہتمام کرنا چاہتی۔ اس کا مقصد ایسا منصوبہ تیار کرنا ہے، جس کے تحت ملکی نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی طرف جانے سے روکنا ہوگا۔