تیونس کے اسلام پسند مذہب کی سیاست سے علیحدگی کے خواہش مند
25 مئی 2016ترکی میں حکمران قدامت پسند مسلمانوں کی جماعت اے کے پی کے سرکردہ رہنما ملک میں ایک نئے اسلامی آئین کے لیے کوشاں ہیں اور ان کے بقول روایتی ترک سیکولرازم کو اب ماضی کا حصہ بن جانا چاہیے۔ اس کے برعکس شمالی افریقہ کی کم عمر جمہوریت تیونس میں اسلام پسندوں کی النہدا پارٹی نے اپنے ایک ملک گیر کنونشن میں فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں اس ریاست میں مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھا جانا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس حیران کن فیصلے کے اثرات پوری عرب دنیا میں دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔
تیونس میں شاید ہی کوئی دوسرا ایسا شہری ہو، جو معاشرے کو اس حد تک تقسیم کا شکار کر دینے والا ہو جتنا کہ اعتدال پسند اسلام پسندوں کی جماعت النہدا پارٹی کے 74 سالہ سربراہ راشد الغنوشی۔کئی لوگوں کے نزدیک الغنوشی اگر ’بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا‘ ہیں تو کئی دیگر حلقوں کے مطابق الغنوشی ایک ایسے میانہ رو سیاستدان ہیں، جو تیونس کے اسلامی تشخص کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
تیونس کے شہر الحمامات میں ہونے والے النہدا کے پارٹی کنونشن میں الغنوشی نے کہا، ’’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سیاسی کشمکش مذہب پر اثر انداز نہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ مساجد ایسی غیر جانبدار جگہیں ہی رہیں، جو ہر قسم کے سیاسی جھگڑوں سے دور ہوں اور جنہیں یکطرفہ انداز میں کوئی بھی اپنے لیے سیاسی ہتھیار کےطور پر استعمال نہ کر سکے۔ اس طرح مذہب منقسم کر دینے والی طاقت کے بجائے ایک متحد کر دینے والی قوت ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
راشد الغنوشی کے بقول ان کی جماعت نہ صرف ملکی آئین کی بالادستی تسلیم کرتی ہے بلکہ مستقبل میں سیاست اور مذہب کو بھی ایک دوسرے سے واضح طور پر علیحدہ کر دے گی۔ الغنوشی کے اس موقف کی النہدا کے پارٹی کنونشن کے مندوبین کی بہت بڑی اکثریت نے حمایت بھی کر دی۔
اس بارے میں النہدا سے تعلق رکھنے والی ملکی پارلیمان کی رکن محرزیہ العبیدی نے کنونشن کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں ایک جمہوری سوچ کی حامل مسلم خاتون ہوں، ایک ایسی سیاسی پارٹی میں، جو تیونس کی پارٹی ہے، ایک اسلامی جماعت ہے اور جمہوری ہے۔ ایک ایسی جماعت جو اسلامی اقدار کو اہمیت دیتی ہے۔ میں بھی لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں اور دیگر پارٹی کارکنوں کی طرح بہتر پرورش، سلامتی کے مؤثر انتظامات اور کم غربت کے لیے مسائل کے بہتر حل چاہتی ہوں، اپنی انہی اقدار کی بنیاد پر جن کی میں ایک جمہوریت پسند مسلمہ کے طور پر نمائندگی کرتی ہوں۔‘‘
تیونس میں الغنوشی اور العبیدی جیسے سیاستدان دوسرے مسلمانوں کو یہ بتانے پر یقین نہیں رکھتے کہ انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، کیسا لباس پہننا چاہیے یا اپنے مذہب پر کس طرح عمل کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ راشد الغنوشی کے لیے الحمامات میں کیا جانے والا پارٹی اعلان اس جماعت میں سیاسی بلوغت کے ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے، جس دوران النہدا ماضی میں ایک ممنوعہ زیر زمین تحریک کے دنوں سے نکل کر اب ایک مسلمہ سیاسی جماعت بن چکی ہے۔
تیونس میں رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ملکی عوام کی ایک بڑی اکثریت سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی حامی ہے۔ اس لیے النہدا نے اب جو فیصلہ کیا ہے، وہ اسے آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں تیونسی باشندوں کی مزید حمایت حاصل کرنے میں مدد دے گا۔