1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تین طلاقوں‘ کے خلاف قانونی مسودہ بھارتی پارلیمان میں

جاوید اختر، نئی دہلی
28 دسمبر 2017

ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت نے مسلمانوں میں بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے سے متعلق ایک متنازعہ قانونی بل پارلیمان میں پیش کر دیا، جس کی مسلمانوں نے مخالفت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2q3TG
تصویر: picture alliance/AP Photo/R. Kakade

’مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل2017‘ کے نام سے اس مسودے کے قانون بن جانے کی صورت میں بیک وقت تین طلاقیں دینا ایک قابل تعزیر اور ناقابل ضمانت جرم ہو گا اور اس کے مرتکب کسی بھی شہری کو تین سال قید کی سزا ہو سکے گی اور جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس بل کو ’شریعت میں مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

تین طلاقیں غیر آئینی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ

بیک وقت تین طلاقیں: بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت شروع
یہ بل پیش کرتے وقت وزیر قانون روی شنکر نے جمعرات اٹھائیس دسمبر کے روز پارلیمان میں انتہائی جذباتی تقریر کی اور کہا، ’’یہ خواتین کے وقار کا سوال ہے، ہم شریعت میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ اس بل کو مذہب کے ترازو پر نہ تولا جائے۔ یہ بل ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کا بل ہے۔ یہ بل مسلم خواتین کو ان کا حق دلانے کی کوشش ہے۔ ہم آج تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ اگر تین طلاقیں سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دی ہیں، اور اس کے بعد بھی یہ جرم کیا جا رہا ہے، تو اس پر پارلیمان کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟‘‘ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش، مصر، مراکش، انڈونیشیا، ملائشیا اور پاکستان سمیت بائیس ملکوں میں ’تین طلاقوں‘ کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بل کو ووٹ بینک کے آئینے سے نہ دیکھا جائے۔

Indien - Parlament in Neu Dehli
یہ قانونی مسودہ بھارتی پارلیمان میں جمعرات اٹھائیس دسمبر کو پیش کیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

کانگریس سمیت بیشتر اپوزیشن جماعتو ں کا کہنا تھا کہ حالانکہ وہ اس بل کی حمایت کرتی ہیں، تاہم اس مسودے میں بہت سی خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ اس بل کو تمام پارٹیوں کی نمائندگی والی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جائے تاہم حکومت نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
متعدد اراکین پارلیمان نے اس بل میں موجود خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ کانگریس کی رکن سشمیتا دیو نے سوال کیا، ’’اگر آپ اس اقدام کو قابل تعزیر جرم بنائیں گے اور کسی بھی شوہر کو جیل بھیج دیں گے، تو اس گھر کی عورت اور اس کے بچوں کی کفالت کون کرے گا؟‘‘ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ آخر کس بنیاد پر ایک سول معاملے کو ’مجرمانہ اقدام‘ بنایا جا رہا ہے۔

Indien Neu Delhi AIMIM Moslem Politker Asaduddin Owaisi
اسدالدین اویسیتصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے رکن بیرسٹر اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ یہ بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بل تضادات کا مجموعہ ہے۔ اویسی کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں بیس لاکھ ایسی خواتین ہیں، جنہیں ان کے شوہروں نے چھوڑ رکھا ہے جبکہ یہ خواتین مسلمان نہیں ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’ان میں گجرات سے ہماری بھابھی بھی شامل ہیں۔‘‘

ان کا اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف تھا، جنہوں نے اپنی اہلیہ کو شادی کے چند سال بعد سے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ اویسی کے بقول انہیں بھی انصاف دلانے کی ضرورت ہے۔
بی جے پی کی میناکشی لیکھی نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’’مودی جی نے لال قلعے کی فصیل سے اپنی مسلم بہنوں کے حقوق کے لیے تین طلاقوں کے خلاف بل لانے کا وعدہ کیا تھا، جسے وہ پورا کر رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی مسلم خواتین کو مکمل انصاف نہیں ملا۔ مکمل انصاف اسی وقت ملے گا، جب ان علماء کے خلاف بھی قانون بنایا جائے گا، جو تین طلاقوں کی روایت کو نافذ کرتے ہیں اور اس کے گواہ بھی بنتے ہیں۔‘‘

Oberstes Gericht Delhi Indien
بھارتی سپریم کورٹ مسلمانوں میں بیک وقت تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس بل کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی صدارت والی کابینہ کمیٹی نے تیار کیا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تین طلاقوں کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا اور حکومت سے اس بارے میں نیا قانون بنانے کے لیے کہا تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس بل کی تیاری میں کسی بھی مسلم تنظیم سے صلاح مشورہ نہیں کیا گیا۔ وزیر قانون روی شنکر نے گزشتہ دنوں پارلیمان میں اس حقیقت کا خود بھی اعتراف کیا تھا۔

مسلم خواتین کو بیک وقت تین طلاقیں دینا ناانصافی ہے، مودی

بھارتی مسلم خواتین ’بہ یک وقت تین طلاقوں‘ کےخلاف میدان میں
اس بل کے حوالے سے معروف تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین اور ماہر سماجیات ڈاکٹر منظور عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بل غیر ضروری اور لایعنی ہے۔ بل کا مسودہ اور تمام دفعات یہ بتا رہی ہیں کہ اس کا مقصد کسی کی اصلاح نہیں۔ اور نہ ہی اس کے ذریعے حکومت خواتین کے مسائل کو حل کرنا اور انہیں ان کے حقوق دلانا چاہتی ہے۔ بلکہ اس کا مقصد تو محض مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور شریعت کو ہدف بنا کر ایک کمیونٹی کو خوش کرنا اور سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ اس بل کا مقصد محض اپنی برتری ثابت کرنا اور دوسروں کو نیچا دکھانا اور ایک خاص پیغام دینا بھی ہے۔ اس بل کو تیار کرتے وقت سب سے زیادہ ضروری تھا کہ صاحب معاملہ سے بھی مشاورت کی جاتی۔ لیکن حکومت نے مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم خواتین کی تنظیموں اور کسی بھی مسلم اسکالر سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں کیا۔‘‘

ڈاکٹر منظور عالم  کا مزید کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس بل کو مسترد کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ حق بجانب ہے۔ ان کے مطابق اس بورڈ اور عوام کو مکمل طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں۔

بھارت میں خواتین کو فوری طلاق دینے کے خلاف جدو جہد جاری