1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'تیرہ سالہ فلسطینی لڑکی کو جان سے مارنے کی ضرورت نہیں‘

7 مارچ 2016

اسرائیل کے صاف گو فوجی سربراہ گادی آئزینکوٹ نے یہ کہہ کر قدامت پسند سیاست دانوں کو ناراض کر دیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے کہ حملہ آور فلسطینیوں کو جان سے نہ مارا جائے۔

https://p.dw.com/p/1I8VD
تصویر: imago

لیفٹیننٹ جنرل گادی آئزینکوٹ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ایک دانش مند شخص ہے، تاہم اسرائیل کے دائیں بازو کے کئی سیاست دان آئزینکوٹ کی ایک حالیہ تقریر کے بعد فوجی سربراہ کی والدہ کے بیان سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔

جنرل آئزینکوٹ نے حال ہی میں ایک بیان دے کر اسرائیلی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر ایک تیرہ سالہ لڑکی ہاتھوں میں کوئی چھرا یا قینچی لیے کھڑی ہو، اور اسرائیلی فوجی اس سے کچھ فاصلے پر ہوں، اور اگر وہ کسی خطرناک کارروائی کا ارادہ بھی رکھتی ہو، تو میں نہیں سمجھتا کہ فوجیوں کو اس لڑکی پر گولیاں چلا دینی چاہییں۔‘‘

آئزینکوٹ کا مزید کہنا تھا کہ کوشش کرنا چاہیے کہ فوجی ایسی کارروائی کریں کہ حملے کو روکا جا سکے ا ور جانی نقصان بھی نہ ہو۔

اسرائیل میں بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ آئزینکوٹ کا بیان سمجھ دارانہ ہے، تاہم ملک میں اس بیان کے حوالے سے بحث کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ اس جنرل کے خیالات کی خاص طور پر اسرائیل کا لبرل طبقہ بھی پذیرائی کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں اسرائیل میں فلسطینیوں کے مسلح حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عام طور پر کسی چھری یا چاقو سے لیس یہ فلسطینی اسرائیلی سکیورٹی فورسز پر حملوں کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں سکیورٹی فورسز اپنے بچاؤ کے لیے ان پر فائرنگ کرتی ہیں۔ اکتوبر سے لے کر اب تک ان واقعات میں ایک سو اکیاسی فلسطینی اور اٹھائیس اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنرل آئزینکوٹ کا بیان اسی تناظر میں ہے۔

دائیں بازو کے سیاست دانوں نے، بشمول وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے اراکین کے، آئزینکوٹ کے اس بیان کو نامناسب قراردیا ہے۔

تاہم میجر جنرل ایلان بیران نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے آئزینکوٹ کی مجموعی سوچ کو ’میانہ رو‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’انہوں نے صورت حال کو بہت آسان طریقے سے بیان کیا ہے۔‘‘

تاہم اسرائیل کے فوجی سربراہ ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کے خلاف نہیں ہیں۔ سن دو ہزار آٹھ میں انہوں نے حزب اللہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ لبنانی دیہاتوں سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کے جواب میں ان علاقوں کو ’زبردست تباہی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فلسطینیوں کی جانب سے آئزینکوٹ کے حالیہ بیان پر محتاط رد عمل سامنے آیا ہے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ یہ بیان دائیں بازو کی حکومت کی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید