1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہتر کروڑ بچے جن کا ’بچپن چھین لیا گیا‘

1 جون 2017

سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے آج بچوں کے عالمی دن کے موقع  ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم  730 ملین بچے اپنے بچپن کے سنہری دور سے محروم رہ جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2dz06
Angola flüchtchtlings Kinder aus Kongo
تصویر: UNICEF/N. Wieland

بچوں کے بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی اس رپورٹ کے مطابق جنگوں اور پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور حاملہ ہونے کے علاوہ خراب صحت بھی اس محرومی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔

اس تنظیم کی سربراہ ہیلے تھورننگ شمٹ کے مطابق، ’’بچے غربت اور امتیازی سلوک کی چکی میں پس کر اپنا بچپن کھو رہے ہیں۔‘‘ اس رپورٹ میں بچپن سے مراد وہ وقت ہے، جب بچے صرف کھیلتے کودتے ہیں اور انہیں مختلف چیزیں سکھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، تاکہ بچوں کی شخصیت تعمیر ہو سکے۔ ہر لڑکی اور ہر لڑکے کو بچپن میں محبت اور تحفظ کے احساس کے علاوہ مکمل  دیکھ بھال کا حق بھی حاصل ہے۔

Kinderarbeit in Goldminen - Burkina Faso
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ouoba

End of Childhood یا ’بچپن کا خاتمہ‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی 172 ممالک کی اس فہرست میں مغربی اور وسطی افریقی ممالک سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ان میں بھی نائجر، انگولا اور مالی کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

دوسری جانب ناروے، سلووینیا، فن لینڈ، ہالینڈ اور سویڈن کے بچے ہیں، جو اپنے بچپن کے سنہری دور سے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں جرمنی دسویں مقام پر ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 168 ملین بچے ایسے ہیں، کام کرنا جن کی مجبوری ہے اور ان میں سے بھی 85 ملین کو انتہائی سخت اور خطرناک حالات میں روزی کمانا پڑتی ہے۔

سیو دی چلڈرن کے مطابق بچپن سے محروم کر دیے جانے والے ان تقریباً 730 ملین بچوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ خاندانوں سے ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات کے شدید فقدان کا سامنا ہے۔