1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تمام سرکاری عمارات میں صلیبیں لگائی جائیں گی، صوبائی حکومت

26 اپریل 2018

جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ نے اس وفاقی ریاست میں تمام سرکاری عمارات میں صلیبیں لگائے جانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ لیکن کیا اس اقدام سے مذہب اور ریاست کو الگ رکھنے کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟

https://p.dw.com/p/2whzW
Deutschland München - Markus Söder, bayerischer Ministerpräsident hängt Kreuz in bayrischer Staatskanzlei auf
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel

باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر  کا تعلق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی کی اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین سے ہے اور انہوں نے یکم جون سے تمام صوبائی سرکاری عمارتوں میں صلیبیں لٹکانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے سوشل میڈیا پر اپنے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اسے ’باویریا اور مسیحی اقدار والی شناخت کے اقرار‘ کا نام دیا۔ باویریا کے وزیر اعلیٰ نے جس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا، اس کے ختم ہوتے ہی وہ باہر آئے اور انہوں نے صوبائی حکومت کے مرکزی دفاتر والی عمارت میں ایک صلیب لٹکائی۔

کیا یہ غیر آئینی ہے؟

باویریا کے وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح انہوں نے ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنے کی آئینی شرط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ مارکوس زوئڈر کا کہنا تھا کہ صلیب ’باویریا کی شناخت‘ ہے نہ کہ مذہب کی۔ اس صوبے کی زیادہ تر آبادی کیتھولک مسیحی ہے۔ ان احکامات کے تحت صرف صوبائی حکومت کی ملکیتی عمارتوں میں ہی صلیبیں لٹکائی جائیں گی۔ صوبے میں موجود مقامی ضلعی اور وفاقی عمارتیں صوبائی حکومت کے زیرکنٹرول نہیں ہیں۔ تاہم یہ قانون صوبے میں تمام اسکولوں اور عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے۔

دوسری جانب اس اعلان کے فوری بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جرمن اپوزیشن جماعتوں نے اسے ریاستی انتخابات سے ایک سال قبل دائیں بازو کے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کا عوامیت پسندانہ طریقہ قرار دیا ہے۔

Infografik Kirchen und Religion Deutschland Verteilung ENG

جرمنی کی وفاقی پارلیمان میں بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ ژان کورٹے کا اس بارے میں تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سی ایس یو (کرسچین سوشل یونین) کچھ ایسا کیوں نہیں سوچتی، جس سے لوگوں میں اتحاد پیدا ہو، نہ کہ ہر سطح پر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘

کورٹے کا مزید کہنا تھا، ’’صوبائی وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام غیرآئینی ہے اور وہ مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کا بھی تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مارکوس زوئڈر اور سی ایس یو جس طرح مذہب کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اس سے مجھے ترک صدر ایردوآن یاد آ جاتے ہیں۔ آئین کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘

دوسری جانب اس حوالے سے ایک قانونی بحث کا بھی آغاز ہو چکا ہے کہ آیا باویریا کے حکومتی سربراہ اس طرح ملکی آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ چرچ نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس اقدام کے ساتھ ایک مذہبی علامت کے طور پر ’صلیب کی بےتکریمی‘ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

اا / م م