تصاوير ميں رنگ بھرنا، امريکی بالغوں ميں ابھرتا ہوا مشغلہ
3 فروری 2016ان دنوں نيو يارک جيسے کسی بھی بڑے امريکی شہر ميں کتابوں کی دکانوں ميں قدم رکھتے ہی بالغوں کے ليے رنگ بھرنے والی کتابيں بڑی خوبصورتی سے سجی دکھائی ديتی ہيں۔ خريدار سنسکرت ڈيزائنز، دلکش مقامات، تتليوں اور پھولوں وغيرہ کی کتابيں چن سکتے ہيں۔ رنگ بھرنے والی يہ تمام کتابيں ذہنی دباؤ کے خلاف کارآمد ثابت ہونے کا دعویٰ کرتی ہيں۔
انٹرنيٹ پر چيزوں کی فروخت کی معروف بين الاقوامی ويب سائٹ ايمیزون پر 20 سب سے زيادہ بکنے والی کتابوں ميں آج کل نو ايسی کتابيں شامل ہيں۔ مداح اپنے نا مکمل ڈيزائن اور طرح طرح کی ترکيبيں سماجی رابطے کی ويب سائٹ فيس بک اور ديگر ويب سائٹس پر شائع کرتے ہيں اور پھر ان پر باقاعدہ تبادلہ خيال ہوتا ہے۔
تخليقی فنون کی ايک لائنس يافتہ سائکوتھیراپسٹ لنڈا ٹرنر بتاتی ہيں کہ يورپی بر اعظم سے شروع ہونے والا رنگ کرنے کا يہ رجحان در اصل انسانوں کو پر سکون کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عموماً بچے تجربے کرنے اور نئی چيزيں دريافت کرنے کے معاملے ميں آگے ہوتے ہيں تاہم بڑی عمر کے افراد تخليق ميں زيادہ دلچسپی نہيں رکھتے۔
نيو يارک کی پبلک لائبريری ميں بالغوں کے ليے پروگراموں کی سربراہ کيلی يم فولکے کا کہنا ہے کہ ان کے پروگراموں ميں شرکت کرنے والے زيادہ تر افراد عمر رسيدہ ہوتے ہيں ليکن رنگ بھرنے کے اس عمل ميں بڑی عمر کے افراد کے علاوہ درميانی عمر کے لوگ، ٹين ايجرز اور بچے سب ہی يکساں ہوتے ہيں۔
نفسياتی ماہر لنڈا ٹرنر ان دنوں ايک منصوبے پر غور کر رہی ہيں، جس کے تحت ’پاپ اپ بارز‘ کھولے جائيں گے، جن ميں لوگ بلا معاوضہ رنگ کر سکتے ہوں اور نفسياتی ماہرين سے ملاقات بھی کر سکتے ہوں۔ انہوں نے بتايا، ’’اس عمل ميں شفا کی طاقت ہوتی ہے کيونکہ جب آپ تخليق کے عمل ميں ہوتے ہيں، تو آپ آرام بھی کر رہے ہوتے ہيں اور آپ کا ذہنی دباؤ بھی کم ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘ ان کے بقول يہ لوگوں کو زيادہ زندہ دل محسوس کراتا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ امريکا کی تاريخ ميں يہ پہلا واقعہ نہيں کہ جب بالغ رنگ بھرنے کے مشغلے کا اس حد تک حصہ بن چکے ہوں کہ بات سرخيوں ميں آنے لگے۔ سن 1961 ميں ’دی ایگزيکيٹو کلرنگ بک‘ جاری ہوئی تھی، جس کے بعد ’جان برچ سوسائٹی کلرنگ بک‘ اور پھر ديگرکتابيں شائع ہوئيں۔