1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کے راستے یورپ آنے والے تارکین وطن

16 فروری 2011

سوڈان سے تعلق رکھنے والے خالد حسن کے آبائی گاؤں میں تقریباﹰ پچاس چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں ہیں۔ اس کا گاؤں ترکی کے بڑے اور گنجان آباد شہر استنبول سے تین ہزار کلو میٹر کے فاصلے پرجنوبی سوڈان میں واقع ہے۔

https://p.dw.com/p/10I6A
تصویر: dapd

دافور میں خانہ جنگی سے فرار ہوکر خالد ایک مہینےتک بہت تکالیف برداشت کرنے کے بعد چند ہفتے پہلے ہی باسفورس کے کنارے اس ترک شہر میں پہنچا تھا۔ لیکن ابھی وہ اپنی حتمی منزل تک نہیں پہنچا، وہ مغربی یورپ جانا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ’’مجھے معلوم ہے کہ اگلا سفر بہت کٹھن اور مشکلات سے بھر پور ہے۔ ہمیں سمندری راستے سےسرحد کو پار کرنا ہے اور یونان کے سرحدی سکیورٹی اہلکاروں کا مہاجرین کے ساتھ برتاؤ دوستانہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔‘‘

Flash-Galerie Italien Tunesien Flüchtlingsstrom nach Lampedusa Küstenwache
تصویر: AP

یہ نواجون جنوبی سوڈان سے آنے والا کوئی پہلا نوجوان نہیں ہے۔ ایشیا اور افریقہ سے استنبول پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور یہ مہاجرین امید کرتے ہیں کہ استنبول سے وہ باآسانی بحریرہ روم سے ہوتے ہوئے یورپی یونین کے کسی ملک پہنچ جائیں گے۔ اندازہ ہے کہ ترکی میں غیر قانونی طور پر پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد اب تک 70 ہزار کے قریب ہے اور استنبول کا علاقہ کمپاکی ان مہاجرین سے بھرا پڑا ہے۔

ترکی میں ،عراق، ایران اور افغانستان کے علاوہ جنوبی سوڈان سے آنے والے خالد جیسے مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ ترکی ان کو صرف تب تک برداشت کرتا ہے جب تک اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے ان سے متعلق تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں اوران تحقیقات کے بعد وہ آگے کسی تیسرے ملک میں نہیں بھیج دیے جاتے۔ مگر ایسی تحقیقات کو مکمل ہوتے ہوئے سالہا سال لگ جاتے ہیں اور اتنا عرصہ خالد حسن انتظار نہیں کرنا چاہتا۔ خالد حسن نے کہا:’’یہاں ترکی میں ہمیں نہ ہی رہنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کام کرنے کی۔ میری خواہش ہے کہ میں روزگار کمانے کے لیے کسی ہنر کی تربیت حاصل کروں مگر ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ کسی وقت بھی ممکن ہے کہ وہ مجھے میرے وطن واپس بھیج دیں۔‘‘

Italien Lampedusa Flüchtling Schiff Küste 13.02.2011
تصویر: AP

ان مشکلات کا سامنا کرنے والوں کو قانونی طورپر شاید ہی کوئی مدد ملتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مہاجرین کی مدد کرتی ہیں اور وہ یورپی یونین پر بھی تنقید کرتی ہیں۔

ہیلسنکی میں ہیومن رائٹس کمیٹی کی ایک نمائندہ خاتون ارم کا کہنا ہے کہ ’’ترکی میں پناہ گزینوں کو شدید پابندیوں کا سامنا ہے اور کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ انہیں قید میں بھی رکھا جاتا ہے۔ ان تارکین وطن کی مہاجرت کی اصل وجوہات کی تحقیق کیے بغیر، ترکی میں بغیر سیاسی پناہ کے، اور بغیر انہیں کوئی تحفظ دیے، واپس ان کے آبائی ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں انہیں قید اور ایذا رسانی کے خطرے کا سامنا بھی ہوتا ہے۔‘‘

ترک حکومت نے اکثر سیاسی پناہ کا ایک ایسا نیا قانون متعارف کرانے کے وعدے بھی کیے، جس کا حزب اختلاف کافی عرصے سے مطالبہ کر رہی ہے۔ ترک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان اُفق اُوراس کہتے ہیں کہ ’’یورپ تارکین وطن کے اس مسئلے کو ترکی اور یونان کے کندھوں پر ڈال رہا ہے ۔ اس مسئلے کو ایک بڑا سکیورٹی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جو یوں حل نہیں ہو سکتا۔ یہاں مہاجرین کی کوئی لابی نہیں ہے۔ ترکی میں جون میں انتخابات سے پہلے یقیناﹰ سیاسی پناہ گزینوں کے لیےکوئی نیا قانون نافذ نہیں ہو گا۔‘‘

Flash-Format Sizilien Flüchtlinge Afrika
تصویر: AP

ترکی سے بحفاظت سرحد پار کر کے یونان جانے کے لیے خالد حسین کو کم از کم پانچ سو ڈالر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کو ادا کرنا پڑیں گے۔ وہ اب تک اپنی شناخت ایک جعلی پاسپورٹ کے ساتھ کراتا آیا ہے۔ جونہی اسے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے کافی رقم ملی، وہ اپنا اگلا سفر شروع کر دے گا۔ خالد اپنی ممکنہ سوڈان واپسی سے بہت خوفزدہ ہے۔

خالد حسن کا کہنا ہے کہ ’’عرب ملیشیا گروپوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا۔ میرے تقریباﹰ پورے خاندان کو جان سے مار ڈالا۔ اس کے بعد میں خرطوم چلا گیا۔ وہاں بھی میری جان ایک سیاہ فام افریقی کے طور پر خطرے ہی میں تھی۔ میری اپنے گاؤں میں واپسی میری جان کے لیے بہت پر خطر ہو گی۔‘‘

خالد اپنے دوستوں کے ساتھ ابھی تک رابطے میں ہے۔ اس کے دوست بڑی بےچینی سے اس بات کے منتظر ہیں کہ وہ آخر یورپ کب پہنچتا ہے۔ پھر شاید وہ بھی خالد کی طرح ترک وطن کی کوشش کریں گے۔

رپورٹ: سائرہ حسن

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں