1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی ميں موجود دو تہائی شامی مہاجر بچے تعليم سے محروم

عاصم سليم9 نومبر 2015

ہيومن رائٹس واچ کی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ ترکی ميں پناہ گزينوں کے کيمپوں ميں مقیم شامی بچوں کا ايک تہائی حصہ اسکول جانے کی سہولت سے محروم ہے۔ ايسے بچوں کی تعداد تقريباً پانچ لاکھ بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H25Z
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ammar

ہيومن رائٹس واچ کی پير نو نومبر کو جاری ہونے والی اس رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ سات لاکھ سے زائد شامی بچوں ميں سے صرف دو لاکھ کے لگ بھگ ہی گزشتہ برس اسکول گئے جبکہ بقيہ زبان نہ آنے يا مالی مشکلات کے سبب اسکول جانے سے محروم رہے۔

انسانی حقوق کے  اس ادارے نے تنبيہ کی ہے کہ بنيادی تعليم کی عدم دستيابی ايک پوری نسل کے ليے منفی ثابت ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’اگر کوئی بچہ اسکول نہيں جاتا، تو مستقبل ميں اس کے ليے کئی مسائل پيدا ہو سکتے ہيں۔ ايسے بچے سڑکوں پر وقت گزارنے پر مجبور ہو سکتے ہيں، دوبارہ شام جا کر جنگ کا حصہ بن سکتے ہيں يا پھر يورپ کی جانب جانے کی کوشش کرتے ہوئے سمندروں ميں ڈوب بھی سکتے ہيں۔‘‘

ہيومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ ميں بين الاقوامی برادری پر زور ديا گيا ہے کہ ترکی ميں کيمپوں ميں وقت گزارنے والے پناہ گزينوں کے بچوں کے ليے اسکول اور تعليم کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے۔ ترک وزارت تعليم نے ستمبر 2014ء سے شامی بچوں کو اسکول جانے کی اجازت دے رکھی ہے ليکن ترک زبان نہ آنے کے سبب کئی بچے اس سہولت سے مستفيد نہيں ہو سکتے۔ کچھ بچے کام کاج بھی کرتے ہيں اور اسی سبب اسکول جانا ان کے ليے ممکن نہيں۔

بچوں کے حقوق کے ليے سرگرم نوبل امن انعام يافتہ بھارتی کيلاش ستھيارتھی کے بقول شامی بچوں کو تعليم کی عدم دستيابی مہاجرت کے پس منظر والے خاندانوں کے ليے سب سے بڑا طويل المدتی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بچوں کے ليے تعليم کی فراہمی کو يقينی بنانے کے ليے اضافی سرمايہ کاری کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے بڑے بڑے کاروباری اداروں پر زور ديا کہ وہ کچھ رقم اس مسئلے کے حل پر بھی صرف کريں۔