1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی ميں شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کی اجازت

عاصم سليم11 جنوری 2016

ترکی کے راستے غير قانونی تارکين وطن کے بہاؤ کو روکنے کے تناظر ميں انقرہ حکومت نے اپنے ہاں موجود شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کی اجازت دينے کا منصوبہ بنايا ہے۔ اس اقدام کا مقصد مہاجرين کی يورپ کی طرف ہجرت کی حوصلہ شکنی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HbGf
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

ترک وزير برائے يورپی امور وولکان بوزکير نے کہا ہے کہ انقرہ حکومت شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کی اجازت سے متعلق دستاويزات جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے يہ اعلان يورپی کميشن کے نائب صدر فرانس ٹمرمانس کے ساتھ پير گيارہ جنوری کے روز ملاقات کے بعد دارالحکومت انقرہ ميں ديا۔ گزشتہ ہفتے ٹمرمانس نے بحيرہ ايجيئن کے ذريعے ترکی سے يونان پہنچنے والے پناہ گزينوں کی آمد کو روکنے کے سلسلے ميں انقرہ حکومت کے اقدامات کو غير اطمينان بخش قرار ديا تھا۔

ترکی اس وقت تقريباً 2.2 ملين شامی پناہ گزينوں کی ميزبانی کر رہا ہے، جو اپنے ملک ميں مارچ 2011 سے جاری خانہ جنگی کے سبب نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہيں۔ عراق کے بھی لگ بھگ دو لاکھ پناہ گزين ترکی ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ انقرہ حکومت نے اگرچہ شامی مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھلے رکھے ہيں تاہم انہيں وہاں ملازمت کی اجازت نہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ شام اور عراق کے علاوہ پاکستان، افغانستان، ايران اور ديگر ايشيائی ملکوں سے مغربی يورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکين وطن کے ليے ترکی ايک اہم گزر گاہ کی حيثيت رکھتا ہے۔ گزشتہ برس نومبر ميں اٹھائيس رکنی يورپی يونين اور ترک حکومت کے مابين ايک معاہدہ طے پايا، جس کے تحت تقريباً تين بلين يورو بطور مالی امداد کے عوض ترکی اپنے ہاں سے غير قانونی طور پر يورپ ہجرت والوں کو روکے گا اور انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔

ترک وزير برائے يورپی امور وولکان بوزکير
ترک وزير برائے يورپی امور وولکان بوزکيرتصویر: picture-alliance/AA

شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کے اجازت دينے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ سے بات چيت کرتے ہوئے وولکان بوزکير نے کہا، ’’ہم غير قانونی مہاجرت کا دباؤ کم کرنے کے ليے شامی شہريوں کو ترکی ميں ورک پرمٹ دے رہے ہيں۔‘‘

ترک حکومت شامی شہريوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے ميں ايک عرصے سے کوششيں جاری رکھے ہوئے ہے ليکن داخلی سطح پر بے روزگاری کی دس فيصد شرح اس سلسلے ميں ايک اہم رکاوٹ رہی ہے۔ ترکی ميں ہزارہا شامی مہاجرين کافی کم اجرت پر غير قانونی طور پر ملازمت کرتے ہيں جبکہ اب تک صرف چھ ہزار شامی شہريوں کو ملازمت کی باقاعدہ اجازت دی جا چکی ہے۔