ترکی اور اسرائیل کے مابین بڑھتی کشیدگی
4 ستمبر 2011اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ برس غزہ امدادی قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی کے نتیجے میں 9 ترک باشندوں کی ہلاکت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی اسرائیل کے دفاع کے لیے کی گئی تھی، اس لیے اس پر سرکاری معافی مانگنا خارج از امکان ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ترکی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت ترکی کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتی ہے۔
بینجمن نیتن یاہو نے کہا،’ ہم اس بات پر معافی نہیں مانگ سکتے کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے اپنے دفاع کے لیے کارروائی کی اور غزہ میں جنگجوؤں کو ہتھارروں کی اسمگلنگ روکنے کی کوشش کی‘۔ انہوں نے کہا کہ حماس جنگجو پہلے ہی اسرائیلی عوام پر کم ازکم دس ہزار راکٹ برسا چکے ہیں۔
گزشتہ برس فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں ترک باشندوں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا تھا جبکہ فوجی تعاون کے کئی معاہدوں کو معطل کر دیا تھا۔
دونوں ممالک کے مابین نئی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب اقوام متحدہ کی رپورٹ میں غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو جائز قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد انقرہ حکومت نے اسرائیلی سفیر کو بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ باقی ماندہ فوجی معاہدوں کو بھی معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
اب ایک نئی پیشرفت میں ترک حکومت نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی کو عالمی عدالت انصاف ICJ میں چیلنج کرے گی۔ ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے کہا ہے کہ اس حوالے سے قانونی کام آئندہ ہفتے سے شروع کر دیا جائے گا۔
ترک حکومت کا مؤقف ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی غیر قانونی ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس جنگجوؤں تک اسلحے کی اسمگلنگ روکنے کے لیے یہ ناکہ بندی ناگزیر ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین