ترک پارلیمانی الیکشن: ایردوآن دو تہائی اکثریت کے راستے پر
12 جون 2011پولنگ ختم ہونے کے قریب دو گھنٹے بعد مغربی یورپ کے معیاری وقت کے مطابق اتوار کی شام سات بجے تک کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 75 فیصد کی گنتی مکمل ہو چکی تھی۔ اس گنتی کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق تب تک ایردوآن کی پارٹی برائے انصاف اور ترقی کو 51.3 فیصد ووٹ حاصل ہو چکے تھے۔ تجزیہ زنگاروں کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ رجب طیب ایردوآن کی پارٹی کو ممکنہ طور پر کل 550 رکنی پارلیمان میں 331 تک نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
دوتہائی اکثریت کے لیے اس پارٹی کو کم از کم 330 سیٹیں درکار ہوں گی۔ تاہم یہ بات ابھی غیر یقینی ہے کہ آیا پارٹی برائے انصاف اور ترقی کو حتمی نتائج میں بھی اتنی بڑی پارلیمانی اکثریت حاصل ہو گی کہ وہ مجوزہ ریاستی آئین کی منظوری کے لیے ملک میں اس طرح ریفرنڈم کرا سکے کہ اس ریفرنڈم کی کامیابی بھی تقریباﹰﹰ یقینی ہو۔
ترکی میں ان انتخابات سے پہلے تک کام کرنے والی قومی پارلیمان میں ایردوآن کی جماعت کو 331 نشستیں حاصل تھیں۔ CNN Turk نامی نشریاتی ادارے کے انتخابی جائزوں کے مطابق 75 فیصد ووٹوں کی گنتی پوری ہونے تک سیکولر ترکی کی حامی اور مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت سی ایچ پی 24.8 فیصد ووٹ حاصل کرتی نظڑ آ رہی تھی جبکہ قوم پسندوں کی جماعت MHP کو بھی ممکنہ طور پر 14 فیصڈ ووٹ ملیں گے۔ یوں یہ جماعت بھی نئی ملکی پارلیمان میں موجود ہو گی کیونکہ وہ ایوان میں نمائندگی کے لیے کُل ڈالے گئے ووٹوں میں سے کم از کم دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پوری کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ترک ریاست گزشتہ کافی عرصے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں زیادہ سے زیادہ اہم کردار کی حامل بنتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم ایردوآن اور ان کی جماعت نے ترکی کو جو سیاسی اور اقتصادی استحکام دیا ہے، اس کا اندرون ملک اور بیرون ملک بھی واضح طور پر اعتراف کیا جاتا ہے۔
ایردوآن ترکی میں سن 2002 سے اقتدار میں ہیں اور آج کے الیکشن میں اپنی جماعت کی کامیابی کے ساتھ انہیں تیسری مدت کے لیے بھی یہ موقع مل جائے گا کہ وہ ترک ریاست میں سیاسی، جمہوری اور سماجی تبدیلیوں کے اپنے اس جامع پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھیں، جسے ان کی جماعت اے کے پی ’ٹارگٹ 2023‘ کا نام دیتی ہے۔
اس سے مراد سن 2023 میں جدید ترک ریاست کے قیام کے سو برس پورے ہونے تک ترکی میں اتنی تبدیلیاں لانا ہیں کہ مثال کے طور پر اس ملک کا شمار دنیا کی دس سب سے بڑی معیشتوں میں ہو سکے اور وہاں فی کس سالانہ آمدنی بھی، جو اس وقت قریب دس ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے، کم ازکم ڈھائی گنا ہو کر پچیس ہزار امریکی ڈالر سالانہ کے برابر تک پہنچ جائے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عصمت جبیں