1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک سرحدی محافظوں کی مہاجرین پر مبینہ فائرنگ

شمشیر حیدر AFP, AP
4 فروری 2018

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا ہے کہ ترک سرحدی محافظوں نے شام سے فرار ہو کر ترکی کا رخ کرنے والے مہاجرین پر فائرنگ کی ہے۔ انقرہ حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2s6Ty
Türkische Flagge in Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis

انقرہ حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے شامی مہاجرین پر فائرنگ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نے شامی مہاجرین کے لیے ’کھلے دروازے کی پالیسی‘ جاری رکھی ہوئی ہے اور سن 2011 میں شامی خانہ جنگی شروع ہونے سے لے کر اب تک 3.5 ملین سے زائد شامی شہری ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ہمیں واپس پاکستان جانا ہے، یونان میں محصور پاکستانی مہاجرین

مہاجرین کے بحران کا مقابلہ مل کر، جنوبی یورپی ممالک کا اصرار

اقوام متحدہ کے مطابق ترکی کی جانب سے شامی کردوں کے خلاف کارروائی کے بعد سے اب تک قریب ڈھائی لاکھ مزید شامی شہری اپنے علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بے گھر ہونے والے یہ مہاجرین محفوظ مقام کی تلاش میں ترک سرحد کے قریبی علاقوں کی جانب روانہ تھے کہ اس دوران ترک فوج نے اپن پر فائرنگ کر دی۔ اس ادارے نے سولہ شامی مہاجرین سے گفتگو کی جن میں سے تیرہ افراد نے ترک فوج کی جانب سے کی گئی فائرنگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شامی حدود کے اندر موجود ان مہاجرین میں سے دس افراد گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔

ترکی میں صحافیوں نے صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم قالِن سے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ حکومت نے شامی خانہ جنگی کے آغاز ہی سے مہاجرین کے لیے ’کھلے دروازے کی پالیسی‘ اختیار کر رکھی ہے۔

تاہم شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ترک سرحد بدستور بند ہے اور سوائے ہنگامی حالات کے، کسی مہاجر کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کے لیے علاقائی نائب ڈائریکٹر لاما فقیہہ نے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ عفرین اور ادلب میں ترک فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’تحفظ کی تلاش میں ترک سرحد کا رخ کرنے والے ان مہاجرین کو روکنے کے لیے ترک فوج تشدد اور فائرنگ سے کام لے رہی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے اس عالمی ادارے کی خاتون اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ انقرہ نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تعداد میں شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے اور انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں تاہم یہ بھی کہا، ’’لیکن ترکی کے مہاجرین کو پناہ دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ترک سرحدی محافظوں کو پناہ کی تلاش میں سرحدوں پر آنے والے مزید تارکین وطن کا تحفظ یقینی بنانے کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

ادارے نے ترک صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکی فوج کو سرحدی گزرگاہوں پر ’طاقت کے ہلاکت خیز استعمال‘ سے روکنے کے لیے ہدایات جاری کریں۔

اٹلی: پناہ کے قوانین میں تبدیلی کا مجوزہ قانون

مسلح گروہ ’بریگیڈ 48‘ مہاجرین کو یورپ جانے سے روک رہا ہے