1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک انتخابات: صدر ایردوآن کو برتری حاصل

24 جون 2018

غیر حتمی ابتدائی نتائج کے مطابق چوبیس جون کو ہونے والے صدراتی اور پارلیمانی انتخابات میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی سیاسی جماعت کو برتری حاصل ہے۔ ترک صدر کے 15 سالہ اقتدار میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/30BiT
Präsidentschaftswahlen Türkei Erdogan
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis

تجزیہ کاروں کے مطابق ترکی میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) واضح برتری کے ساتھ کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ابتدائی غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق چالیس فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گئی ہے، جس میں صدر رجب طیب ایردوآن کو اٹھاون فیصد ووٹوں کے ساتھ برتری حاصل ہے۔

چونسٹھ سالہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے قریب ترین حریف سوشل ڈیموکریٹ رہنما محرم انچی ہیں۔ چون سالہ انچی کا تعلق ری پبلکن پیپلز پارٹی ( سی ایچ پی) سے ہے اور انہیں ابھی تک تقریبا ستائیس فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔

Türkei - Wahlen
تصویر: Getty Images/C. McGrath

صدارتی انتخابات میں اگر کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو صدارتی انتخابات کا دوسرا راؤنڈ آٹھ جولائی کو ہوگا۔ آج کے انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آوٹ تقریبا ستاسی فیصد رہا ہے۔

 یہ انتخابات ترکی کو اُس انتظامی صدارتی نظام کے نفاذ کی جانب لے جائیں گے، جس کی منظوری گزشتہ برس ترک عوام نے ایک ریفرنڈم میں دی تھی۔

ترک صدر ایردوآن اگر ان انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو نئے صدارتی نظام کے تحت انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ایردوآن کی حکمران جماعت اے کے پی پُر امید ہے کہ اسے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو گی۔

سن 2003 سے اقتدار پر فائز صدر ایردوآن کو تاہم اس بار ایک مضبوط اور متحد حزب اختلاف کا سامنا ہے، جس نے ترکی کو ’پارلیمانی جمہوریت‘ کی طرف واپس لانے کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ اپوزیشن ایردوآن کی ’شخصی حکومت‘ کی مذمت کرتی ہے۔

کیا ترک انتخابات ایک نئی قوم کو جنم دیں گے؟

یوں تو ترک صدر کے خلاف بطور صدارتی امیدوار پانچ افراد کھڑے ہیں لیکن اُن کا اصل مقابلہ ان کے سخت ناقد اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما محرم انچی سے ہی ہے۔

ا ا / ع ح