1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک انتخابات: صدارتی یا پارلیمانی نظام کے لیے فیصلہ کن جنگ

امتیاز احمد7 جون 2015

ترکی میں پولنگ کا وقت اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن کے لیے اس انتخابی عمل کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ وہ اس میں واضح کامیابی کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FcxL
Türkei Wahlen Wahllokal Frauen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici

ترکی بھر میں عوامی رائے دہی کا آغاز عالمی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے (مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھے بجے) شروع ہوا۔ سن 2003 میں بطور وزیر اعظم اقتدار میں آنے والے ایردوآن گزشتہ برس صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ ترکی میں صدارتی نظام متعارف کرانے کے خواہشمند ہیں۔ ان انتخابات سے پہلے نہ صرف مضبوط معیشت بلکہ کردستان کے مسئلے پر بات چیت کرنے کے وعدے کیے گئے ہیں۔

ترکی بھر میں سیاسی ماحول سخت بیان بازی کی وجہ سے کشیدہ ہے۔ ہفتے کے روز کردستان کی حامی بائیں بازو کی جماعت پر بم حملہ بھی ہوا تھا، جس کے بعد اس پارٹی کے رہنماؤں نے سخت اور تلخ بیان جاری کیے ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوآن کی دائیں بازو کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (اے کے) پارٹی سن 2002ء سے اقتدار میں ہے اور موجودہ انتخابات میں بھی 550 سیٹوں والی پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔

اگر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (اے کے) پارٹی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ملکی آئین میں بھی تبدیلی کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام رائج کر دیا جائے گا۔ اِس طرح ملکی صدر یعنی رجب طیب ایردوآن کو مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 303 سیٹیں حاصل کرنے کے بعد آئین کا نیا مسودہ تیار کیا جائے گا اور عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس کی منظوری کی کوشش کی جائے گی۔

تاہم انتخابات سے پہلے کروائے گئے عوامی جائزوں کے مطابق اے کے پارٹی کے لیے اتنی بڑی اور واضح اکثریت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ پارلیمان میں حزب اختلاف کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ ملک میں صدارتی نظام کی مخالف ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ اے کے پارٹی ان تینوں جماعتوں کی نسبتاً آگے ہے۔ اگر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (اے کے) پارٹی کو 276 سیٹیں حاصل ہو جاتی ہیں تو یہ بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر ان سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 330 ہو جاتی ہے تو یہ جماعت ملکی آئین میں تبدیلی کے عمل کا آغاز کر سکے گی۔

ترک آئین کے مطابق ملکی صدر کا انتخابات کے دوران غیر جانبدار رہنا لازمی ہے لیکن حالیہ دنوں میں صدر رجب طیب ایردوآن نہ صرف عوامی تقریریں کر چکے ہیں بلکہ متعدد سیاسی بیان بھی دے چکے ہیں، جس پر کرد نواز بائیں بازو کی پیپلز ڈیموکریسی پارٹی (ایچ ڈی پی) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تنقید کی گئی ہے۔

پیپلز ڈیموکریسی پارٹی (ایچ ڈی پی) لبرل ازم کے معرے کے ساتھ میدان میں اتری ہے اور پارلیمان میں دس فیصد تقریباﹰ پچاس سیٹیں حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس کی ممکنہ کامیابی حکمران جماعت کی سیٹوں کو تقسیم کرنے کے علاوہ اس کی طاقت پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔