1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحفظ ماحول کے ليے عالمی سطح پر نوجوان سرگرم

11 اپریل 2018

دنيا کی نصف سے زائد آبادی تيس برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ موسمياتی تبديليوں سے بچنے کے ليے ان دنوں عالمی سطح پر نوجوان اس مقصد کے ليے کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2vshI
COP23 Klimakonferenz in Bonn Care about Climate Group
تصویر: DW/J. Collins

آرُو شينے اجے کچھ سال بعد بھارت اپنے گھر لوٹيں تو وہ يہ ديکھ کر دنگ رہ گئيں کہ جن نديوں اور ہرے بھرے ميدانوں ميں کھيلتے ہوئے ان کا بچپن گزرا، اب وہ سب خشک سالی کے سبب تباہ ہو چکے ہيں۔ امريکی رياست پنسلوانيا کے سوارتھمور کالج کی طالبہ بيس سال اجے کہتی ہيں، ’’ميں جس جگہ کو اچھی طرح جانتی ہوں، وہ مکمل طور پر تبديل ہو چکی ہے۔‘‘ خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے ٹيلی فون پر بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ موسمياتی تبديليوں کا سوچتے ہی ان پر خوف اور غصہ طاری ہو جاتا ہے۔

آرُو شينے اجے نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے ليے ’سن رائز موومنٹ‘ سے رابطہ کيا۔ يہ امريکا ميں سرگرم نوجوانوں کا ايک گروپ ہے جس کی کوشش ہے کہ موسمياتی تبديليوں کو روکنے اور اس ضمن ميں لاکھوں لوگوں کے ليے ذريعہ معاش تلاش کرنے کے ليے نوجوانوں کی ايک فوج اکھٹی کی جائے۔ بيس سالہ آرُو شينے اجے نے موسمياتی تبديليوں کو روکنے کے مقصد سے باقاعدہ طور پر کام شروع کيا اور ايک موقع پر ’سن رائز موومنٹ‘ کے ديگر ارکان کے ساتھ ری پبلکن جماعت کے سياستدان پيٹرک ميہان کے دفتر پر دھاوا بھی بول ڈالا۔ يہ نوجوان رضاکار بتاتی ہيں کہ اس قبضے کا مقصد ميہان کو ايک متنازعہ بل پر دستخط کرنے سے روکنا تھا، جس کے تحت وہ ايندھن سے لاکھوں ڈالر بنانے والے کاروباری اشخاص پر ٹيکس کی شرح کم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

در اصل ايسے عوامل سے آرُو شينے اجے کو يہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کچھ تبديلی لا سکتی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچا جا سکتا ہے اور اس ضمن ميں ان کی نسل کے نوجوان سرگرم ہيں۔ اس کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ يہی وہ نسل ہے، جو موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے در حقيقت سب سے زيادہ متاثر ہو گی۔

پاکستان: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ شہد کی فارمنگ سے

دنيا کی نصف سے زائد آبادی تيس برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ عالمی سطح پر يہ ديکھا جا رہا ہے کہ نوجوان نسل کے افراد سياسی، سماجی اور ماحولياتی امور پر زيادہ فعال ہوتے جا رہے ہيں۔ دنيا کے کئی ممالک ميں موسمياتی تبديليوں سے بچنے کے ليے ادارے بن رہے ہيں، جن ميں سے زيادہ تر نوجوانوں کی کاوشوں کا نتيجہ ہيں۔

ايسے نوجوانوں کا دعوی ہے کہ پچھلی نسلوں نے انہيں مايوس کيا ہے۔ کئی کا اب کہنا ہے کہ وہ اپنی قسمت بدلنے کے ليے خود ہی کوششيں کر رہے ہيں اور انہيں نتائج بھی دکھائی دينے لگے ہيں۔ کولمبيا کی ايک يوتھ آرگنائزيشن ’ڈیجسٹيسيا‘ سے منسلک پچيس سالہ کاميلا بوسٹوس نے اپنی ہی حکومت پر مقدمہ دائر کر ديا۔ انہوں نے ايمزون کے جنگلات ميں درخت کاٹنے اور جنگلات کا رقبہ کم کرنے پر يہ مقدمہ دائر کرايا۔ ان کا موقف ہے کہ رياست اس متنازعہ عمل کو روکنے ميں ناکام ہوئی اور يوں نوجوانوں کا صحت مند ماحول ميں رہنے کا حق متاثر ہوا۔ پچھلے ہفتے ہی کولمبيا کی اعلی ترين عدالت نے ان کے حق ميں فيصلہ سنايا۔

’ درخت تو ہر ملک ميں کٹتے ہيں، يہ کون سی بڑی بات ہے‘

ع س / اا، نيوز ايجنسياں