1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

030511 Klimawandel CO2-Handel Korruption

10 مئی 2011

برلن میں قائم ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2020ء تک موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے اثرات پر قابو پانے کے لیے اربوں ڈالر کی مجوزہ سرمایہ کاری کے پیشِ نظر بد عنوانی کے بھی بے پناہ امکانات ہیں۔

https://p.dw.com/p/11D33

وجہ اِس کی یہ ہے کہ جہاں پیسہ ہوتا ہے، وہاں کرپشن بھی ضرور ہوتی ہے۔ تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اگر اِس شعبے میں بدعنوانی ہوئی، تو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ نمایاں طور پر مشکل ہو جائے گی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جرمنی کی چیئر پرسن ایڈا ملر نے کہا کہ اِس جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ نگرانی کے نظام کو بہت زیادہ مضبوط اور مستحکم بنا دیا جائے۔

ایڈا ملر بتاتی ہیں:’’ابھی سے تحفظ ماحول کے شعبے میں نجی اور سرکاری سطح پر بھاری رقوم مختص کی جا رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں جہاں ایک طرف تحفظ ماحول کی کوششوں میں زیادہ تیزی لانے کی ضرورت ہے، وہیں اِن کوششوں کو دھوکہ دہی اور بدعنوانی سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔ ان نظاموں کو واضح اور شفاف بنایا جانا چاہیے۔ رقم کہاں سے آ رہی ہے، معاہدے کون سے طے ہو رہے ہیں، یہ سب پتہ چلنا چاہیے۔‘‘

خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کئی ادارے شروع میں اپنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار زیادہ بتائیں گے تاکہ بعد ازاں نام نہاد فالتو مقدار دوسرے اداروں کو فروخت کر سکیں
خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کئی ادارے شروع میں اپنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار زیادہ بتائیں گے تاکہ بعد ازاں نام نہاد فالتو مقدار دوسرے اداروں کو فروخت کر سکیںتصویر: AP

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق جن بیس ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سب سے زیادہ سامنا ہے، اُنہی میں بدعنوانی کے خطرات بھی سب سے زیادہ ہیں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی ہر اُس جگہ ممکن ہے، جہاں نگرانی اور احتساب کا فُقدان ہے۔

یہ شعبہ جرائم پیشہ افراد کے لیے کتنا پُر کشش ہے، اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی جنوری میں ہیکرز نے چیک ری پبلک، آسٹریا، ایسٹونیا، یونان اور پولینڈ میں ڈیٹا بینک سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی طور پر دو ملین ٹن یا 28 ملین یورو مالیت کے سرٹیفیکیٹ چرا لیے۔ یورپی یونین کے جاری کردہ یہ سرٹیفیکیٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے لین دین میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ کبھی اُس سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے، جتنی کہ اُسے اجازت ہے، تو پھر وہ باقی ماندہ سرٹیفیکیٹ کسی اور ادارے کو فروخت کر سکتا ہے۔

جنوری میں ہیکرز نے چیک ری پبلک، آسٹریا، ایسٹونیا، یونان اور پولینڈ میں ڈیٹا بینک سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی طور پر دو ملین ٹن یا 28 ملین یورو مالیت کے سرٹیفیکیٹ چرا لیے
جنوری میں ہیکرز نے چیک ری پبلک، آسٹریا، ایسٹونیا، یونان اور پولینڈ میں ڈیٹا بینک سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی طور پر دو ملین ٹن یا 28 ملین یورو مالیت کے سرٹیفیکیٹ چرا لیےتصویر: dpa

ضرر رساں گیسوں کی تجارت کی بین الاقوامی تنظیم IETA کے ڈائریکٹر ہینری ڈیروینٹ کہتے ہیں:’’آئندہ یہ یورپی ڈیٹا زیادہ محفوظ ہو گا کیونکہ اب ہم ستائیس الگ الگ مراکز کے اِس مضحکہ خیز نظام کو ترک کر رہے ہیں۔ اب ہمارا یورپی یونین کا ایک ہی مرکز ہو گا، جس کی نگرانی بھی آسانی سے کی جا سکے گی۔‘‘

تاہم خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کئی ادارے شروع میں اپنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار زیادہ بتائیں گے تاکہ بعد ازاں نام نہاد فالتو مقدار دوسرے اداروں کو فروخت کر سکیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً دَس تا 23 ارب ڈالر مالیت کے درخت غیر قانونی طور پر کاٹے جاتے ہیں۔ یورپی یونین میں متعارف کرائے جانے والے نئے ضوابط کے بعد یہاں وہی لکڑی درآمد کی جا سکے گی، جس کے بارے میں یہ ضمانت دی جائے گی کہ اِسے جائز اور غیر مشکوک ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں