1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تجارت، دفاع اور بحرانوں پر امريکی اور جرمن موقف قطعی مختلف

عاصم سلیم
6 اپریل 2017

نيٹو کے ہيڈکوارٹرز ميں گزشتہ دنوں ہونے والے ايک اجلاس ميں دفاعی بجٹ ميں اضافے سميت کئی امور پر جرمن اور امريکی وزرائے خارجہ کے مابين اختلافات کافی واضح تھے۔ يہ اختلاف رائے امريکا اور يورپ کے تعلقات کو کہاں لے جائے گا؟

https://p.dw.com/p/2amoU
Symbolbild polnische Soldaten | Polen zieht Soldaten aus europäischer Eurokorps-Truppe ab
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جرمن وزير خارجہ زيگمار گابريئل نے مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے ليے جرمنی کا اپنے حصے کا ادا کردہ بجٹ بڑھانے کے حاليہ امريکی مطالبات مسترد کر ديے ہيں۔ امريکا کا مطالبہ ہے کہ جرمنی سن 2024 تک نيٹو کے ليے اپنے سالانہ بجٹ کو ستر بلين يورو تک بڑھائے، جو اس وقت چاليس بلين يورو ہے۔ گابريئل نے اس مطالبے کو ’غير ضروری اور غير حقيقت پسندانہ‘ قرار ديا ہے۔ اس بارے ميں جرمن وزير خارجہ کا مزيد کہنا تھا، ’’ہم اس وقت اپنے ملک ميں تارکين وطن پر کافی رقوم خرچ کر رہے ہيں۔ جرمنی ميں پناہ گزينوں کی آمد اس ليے جاری ہے کيونکہ چند ممالک ميں عسکری مداخلتوں سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے اور نہ ہی وہاں استحکام قائم ہو سکا۔‘‘

جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ سے بات چيت کرتے ہوئے جرمن وزير خارجہ نے مزيد کہا کہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو يہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ان کی طرف سے اقتصادی شعبے ميں بچتی پاليسياں اپنائی جاتی ہيں، تو اس کے رد عمل ميں يورپی يونين اور چين بھی فوری طور پر اور بغير کسی سمجھوتے کے ايسی ہی حکمت عملی اختيار کريں گے۔ گابريئل نے خبردار کيا کہ ايسی صورتحال ميں جوابی طور پر ٹيکسوں ميں اضافہ کرنے کے علاوہ ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن ميں مقدمات بھی دائر کيے جا سکتے ہيں۔ جرمن وزير خارجہ زيگمار گابريئل کا کہنا تھا کہ امريکا اقتصادی جنگ کا راستہ اختيار کر رہا ہے اور يورپی يونين کو يہ فيصلہ کرنا ہو گا کہ آيا ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن ميں اس کی باقاعدہ شکايت کی جانا چاہیے۔

Infografik Defense expenditure by share of GDP Englisch

رواں برس جنوری ميں امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نيٹو کو ایک ’دقيانوسی‘ ادارہ قرار ديتے ہوئے بريگزٹ کی تعريف کی تھی اور چند ديگر ملکوں کے يورپی يونين سے انخلاء کی پيش گوئی بھی کر دی تھی۔ برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ اور جرمن اخبار ’بلڈ‘ کو ديے گئے اپنے اس انٹرويو ميں ٹرمپ نے جرمنی ميں گاڑيوں کی پيداواری صنعت کے خلاف پابندياں عائد کرنے کی دھمکی بھی دی تھی اور مہاجرين کے بحران کے حوالے سے برلن حکومت کی پاليسيوں کو بھی کڑی تنقيد کا نشانہ بنايا تھا۔ ان کے ايسے بيانات نے يورپی قيادت کو ہلا کر رکھ ديا تھا۔ اس کے رد عمل ميں جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا تھا کہ يورپ اپنے فيصلے خود کرتا ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی ميں داخلی سطح پر جنگ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہيں۔ جرمنی میں گُنٹر گراس جيسے معروف دانشوروں نے سن 2003 ميں جرمنی، فرانس اور بيلجيم کی قيادت کو عراقی جنگ کی مخالفت کرنے پر رضامند کر لیا تھا۔ اس کا نتيجہ یہ نکلا تھا کہ تب امريکا کو پولينڈ اور ہنگری جیسے مشرقی يورپی ممالک کا سہارا لينا پڑا تھا۔

جرمنی میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں