1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی زندہ ہے

شکور رحیم، اسلام آباد11 فروری 2015

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے میں شامل ملکوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کےتمام ممالک کے لیے اہم یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1EZi8

بدھ کو وزیر اعظم ہاﺅس میں (تاپی) منصوبے میں شامل ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس پراجیکٹ پر عمل درآمد میں مثبت کردار ادا کر کے پاکستان کو بڑی خوشی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے اور تاپی پراجیکٹ اس قلت پر قابو پانے کے سلسلے میں بہت مددگار ہو گا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم سب کو اس موقع کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تاکہ ہم اپنی عوامی ذمہ داریاں پوری کر سکیں‘۔

گیارہ دسمبر 2010ء کو ترکمانستان کے دارالحکومت میں تاپی منصوبے کے حوالے سے سمجھوتے پر دستخطوں کی تقریب میں افغانستان اور پاکستان کے سابق صدور حامد کرزئی اور آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے
گیارہ دسمبر 2010ء کو ترکمانستان کے دارالحکومت میں تاپی منصوبے کے حوالے سے سمجھوتے پر دستخطوں کی تقریب میں افغانستان اور پاکستان کے سابق صدور حامد کرزئی اور آصف علی زرداری بھی شریک ہوئےتصویر: picture alliance/landov

سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں شریک ترکمانستان، افغانستان اور بھارت کے متعلقہ وزراء نے وزیر اعظم کو اس منصوبے میں پیشرفت سے آگا ہ کیا اور اسے تمام ممالک کے لیے ایک سود مند منصوبہ قرار دیا۔ اجلاس میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ اس منصوبے کے کنسورشیم کے سربراہ کا انتخاب جلد ہی کر لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ تاپی منصوبے میں شامل ممالک کے سربراہان نے 2010 ء میں اس گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 56 انچ قطر کی 1680 کلو میٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے ترکمانستان سے سالانہ 3.2 بلین کیوبک فیٹ گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت کو فراہم کی جائے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیےایشیائی ترقیاتی بینک فنڈنگ کر رہا ہے۔ منصوبے کی ابتدائی لاگت 3.3 ارب ڈالرز تھی تاہم 2008ء میں نظر ثانی کے بعد اس منصوبے کی لاگت بڑھ کر دگنی سے بھی زائد یعنی 7.6 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔ ماہرین کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لاگت میں بھی اور بھی اضافہ ہو جائے گا۔ منصوبے کی بروقت تکمیل کی صورت میں 2017 ء میں گیس کی ترسیل شروع ہو جائے گی۔

اسی سبب پاکستانی وزیر اعظم نے بدھ کو منعقدہ اجلاس میں اس منصوبے میں شامل ممالک پر زور دیا کہ وہ اس کی جلد از جلد تکمیل کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں کیونکہ ان کے بقول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات رکھتا ہے اور اسی سبب پاک ایران گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے کی تعمیر کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے
امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات رکھتا ہے اور اسی سبب پاک ایران گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے کی تعمیر کھٹائی میں پڑی ہوئی ہےتصویر: Getty Images

دریں اثناء تاپی ممالک کے وزراء کی سٹیئرنگ کمیٹی کا بیسواں اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے کنسورشیم لیڈر کے انتخاب اور پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان راہدری فیس کے تعین کے لیے بات چیت کی گئی۔

ماہرین کے مطابق توانائی کے بدترین بحران کے شکار پاکستان کے لیے تاپی گیس پائپ لائن اس منصوبے میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ ’تاپی منصوبہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس پر امریکہ کو بھی اعتراض نہیں ہو گا جو کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات رکھتا ہے اور اسی سبب پاک ایران گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے کی تعمیر کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ تاپی گیس منصوبے کی فنڈنگ ایشیائی ترقیاتی بنک کر رہا ہے جس کی وجہ سے اسے پاک ایران منصوبے کی طرح فنڈنگ کے مسائل درپیش نہیں ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وسطی ایشیا کے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کی حامل دیگر ریاستیں بھی اسی نوعیت کے منصوبے شروع کر سکتی ہیں جس سے علاقائی تعاون میں اضافے کے ساتھ ساتھ خطے میں توانائی کی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔

خیال رہے کہ ایران سے پاکستان کو گیس کی فراہمی کے لیے زیر تعمیر 1900 کلومیٹر طویل پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مختلف وجوہات کی بناء پر سست روی کا شکار ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایران کے پارس گیس فیلڈ سے پاکستان کو 750 ملین کیوبک فیٹ گیس مہیا کی جانی ہے۔