تائیوان کے صدر کی چینی مندوب سے ملاقات
6 نومبر 2008تائیوان میں چینی مندوب کے اس دورے کے موقع پرہزاروں مظاہرین نے ان مزاکرات کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تائیوان کے صدر ماژنگ ژُو کی چینی سفارت کار برائے تائیوان چین یُو لِن سے ملاقات میں چین اور تائیوان کے درمیان تجارت اور ذرائع آمد ورفت کے حوالے سے معاہدوں پر اتفاق بھی ہو گیا۔ دونوں جانب سے یہ گرمجوشی برسوں بعد نظر آئی ہےحالانکہچند سال پہلے تک یہی دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔
تائیوان کے صدر نے چینی مندوب Chen Yunlin سے ملاقات کے بعد کہا :’’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں اطراف کوایک دوسرے کے قریب آنے کی کوششوں میں اب بھی بےشمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘
اس موقع پردونوں ملکوں کے درمیان ہوائی رابطوں میں اضافے، باہمی تجارتی اشیاء کی نقل و حمل اور ڈاک کے براہ راست نظام کے حوالے سے معاہدوں پر بھی اتفاق رائے ہو گیا۔
تائیوان کے ساتھ اپنے تنازعے میں بیجنگ کو سفارتی اعتبار سے 170 ممالک کی تائید حاصل ہے جب کہ تائیوان کو اب تک صرف 23 ممالک نے تسلیم کیا ہے۔ چین سے تنازعہ کی وجہ سے تائیوان کو اب تک اقوام متحدہ کی رکنیت بھی نہیں دی گئی۔ چین جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے بیجنگ کا یہ دعویٰ ہے کہ 23 ملین آبادی کا تائیوان، دراصل اس کا باغی صوبہ ہےاور چین ہر صورت میں تائیوان کا انتظام حاصل کرے گا چاہے اس کے لئے جنگ کا راستہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔
اس موقع پرتائی پے میں صدارتی دفتر کے باہرہزاروں مظاہرین نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ربن باندھ رکھے تھےجن پر تحریر تھا:’تائیوان میراملک ہے‘۔ مظاہرین کا یہ مطالبہ تھا کہ چینی مندوب واپس چلے جائیں اور صدر ماژانگ ژو کوبیجنگ کے ساتھ مزاکرات نہیں کرنے چاہیں۔ ایسے میں کچھ مظاہرین نے حفاظتی باڑ توڑ کر صدارتی دفتر میں داخل ہونا چاہاتو پولیس کی مداخلت پر ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ کچھ مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر بوتلیں پھینکی گئیں جن کی وجہ سے چند پولیس اہلکار ذخمی بھی ہوگئے۔