1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’بےنظیر بھٹو کا قتل روکا جا سکتا تھا‘‘، نئی کتاب

عابد حسین5 دسمبر 2013

پاکستان کی مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک نئی کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ بےنظیر بھٹو سن 2007 کے آخری ایام میں راولپنڈی میں قتل کر دی گئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1ATIq
تصویر: Getty Images

پاکستان کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی سیاستدان بےنظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے جو کتاب شائع ہوئی ہے، وہ چلی کے سفارت کار ہیرالڈو مُونوز (Heraldo Munoz) کی اُس انکوائری پر مبنی ہے جو انہوں نے سن 2010 میں اقوام متحدہ کی ایک تفتیشی ٹیم کے ساتھ مکمل کی تھی۔

سن 2008 میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم ہونے والی سابقہ حکومت کے دور میں اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی تھی کہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کے لیے ایک بین الاقوامی ٹیم مقرر کی جائے۔ حکومت کی اپیل پر ہیرالڈو مُونوز کی قیادت میں ایک تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

Heraldo Munoz UN Botschafter Chile
چلی کے سفارت کار ہیرالڈو مُونوزتصویر: AP

بےنظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش مکمل کر کے چلی کے سفارتکار نے اپنی رپورٹ اپریل سن 2010 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کر دی تھی۔ اب ان کی تفتیش اور تجزیے پر مبنی کتاب ’بھٹو کا قتل اور پاکستانی سیاست‘ شائع ہو گئی ہے۔ کتاب کا انگریزی میں نام ہے، ’’گیٹنگ اوے وِد اے مرڈر: بھٹوز اسیسی نیشن اینڈ دی پالیٹکس آف پاکستان‘‘۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب بدھ کے روز نیو یارک میں منعقد کی گئی۔ یہ کتاب اگلے ہفتے کے دوران امریکا میں کتابوں کی دوکانوں پر دستیاب ہو گی۔

نیو یارک میں کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ہیرالڈو مُونوز نے واضح کیا کہ بے نظیر بھٹو کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اور اس مناسبت سے حکومت پاکستان دانستہ طور پر مناسب تفتیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت پاکستان پر فوجی صدر پرویز مشرف کی حکومت قائم تھی۔ مونوز کا یہ بھی کہنا تھا کہ القاعدہ بےنظیر بھٹو کو ہلاک کرنا چاہتی تھی، پاکستانی طالبان نے قتل کے پلان پر عمل کیا اور اُن کو خفیہ اداروں کے بے ایمان ایجنٹوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ مونوز کے مطابق قتل کے بعد پولیس نے قاتلوں کو ایک انداز میں تحفظ بھی دیا۔

Pakistan Pervez Musharraf
پرویز مشرف پر سیاسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ سابق وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی دینے میں ناکام رہے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

اس تقریب میں ہیرالڈو مُونوز نے ، جو اقوام متحدہ کے موجودہ نائب سیکرٹری جنرل بھی ہیں، ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تفتیش کے دوران انہیں کسی قسم کے خوف کا سامنا نہیں رہا لیکن جنوری سن 2010 میں ایک روز اُن کو اس بات پر ضرور مجبور کیا گیا کہ وہ سخت سکیورٹی کے حصار میں اپنے معمولات مکمل کریں۔ مُونوز کے مطابق ان کو ایک قابل اعتماد ذریعے نے متنبہ کیا کہ وہ اُن لوگوں کی قوت سے آگاہ نہیں کیونکہ وہ سب کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ’’اُن لوگوں‘‘ کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں بتائی جن کے بارے میں قابل اعتماد ذریعے نے انہیں باخبر کیا تھا۔

مُونوز نے پاکستانی تفتیش کاروں پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ قتل کے مقام سے صرف 23 شہادتیں اکھٹی کر سکے جبکہ برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا تھا کہ ایسے مقام سے ہزاروں ثبوت جمع کرنا ممکن تھا۔ ہیرالڈ مُونوز نے اِس امکان کو انتہائی مضحکہ خیز قرار دیا کہ بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملک کے غیر مقبول سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی کوئی کردار ہو سکتا ہے۔ مونوز کے مطابق بےنظیر بھٹو کی سکیورٹی کے انچارج پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک تھے لیکن قتل کی واردات کے بعد وہ جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھے۔ مونوز کے مطابق انہیں رحمان ملک سے کسی بات یا سوال کا صحیح اور سیدھا جواب میسر نہیں ہو سکا۔ مُونوز کے مطابق جرم کا عائد کرنا عدالت کا کام ہے لیکن پرویز مشرف پر سیاسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ سابق وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی دینے میں ناکام رہے تھے۔