بے رحم مغرب نواز ڈکٹیٹر حبری عدالتی کٹہرے میں
20 جولائی 2015سینیگال میں سابق ڈکٹیٹر حسین حبری کو پیر بیس جولائی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ سفید لمبے عبایہ اور پگڑی میں ملبوس بہتّر سالہ حسین حبری کو جب عدالت میں پیش کیا جانے لگا تو انہوں نے فضا میں مکا بلند کر کے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ وہ اپنے کچھ مداحوں کے سامنے کھڑا ہونا چاہتے تھے لیکن جیل کے محافظوں نے انہیں آہستہ آہستہ دھکیل کر عدالت کے کٹہرے میں پہنچا دیا۔ عدالت کے باہر کھڑا اُن کا ایک مداح کہہ رہا تھا، یہ بات باعثِ افسوس ہے کہ چاڈ کے نجات دہندہ کو بغیر کسی جرم کے عدالت میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
غیر معمولی افریقی عدالت پہنچ کر حسین حبری نے عدالت کی قانوی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں قائم خصوصی عدالت ’’ایکسٹرا آرڈینیری افریقن چیمبرز‘‘ کے برکینا فاسو سے تعلق رکھنے والے صدر گبیرڈاؤ گستاو کام (Gberdao Gustave Kam) نے کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا کہ حسین حبری کی نمائندگی کے لیے کوئی وکیل موجود نہیں ہے۔ اِس موقع پر سینیگال کے سابق ڈکٹیٹر نے کہا کہ وہ اور اُن کے وکلاء اِس عدالت کی کارروائی میں ہرگز شریک نہیں ہوں گے۔ عدالتی کارروائی کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ملتوی کر دی گئی۔ افریقن چیمبرز کے چار ججوں نے حبری کے خلاف اٹھارہ ماہ تک تفتیش جاری رکھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس مقدمے میں پچیس سو شہادیتں پیش کی جائیں گی۔
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اپنے دورِ حکومت میں حسین حبری نے چاڈ کے چالیس ہزار باشندوں کو ہلاک کیا تھا۔ یہ ہلاکتیں کریک ڈاؤن اور دوسرے چھاپوں اور گرفتاریوں کے دوران کی گئیں۔ ان میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ مخالف نسلی گروپوں کی بڑی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ اسی باعث حسین حبری کو چاڈ کا ’’پنوشے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پنوشے لاطینی امریکی ملک چلی کا ڈکٹیٹر تھا۔ حسین حبری کی طرح پنوشے کو بھی امریکی تائید و حمایت حاصل تھی۔ حسین حبری کو تو فرانس نے بھی بھرپور تعاون پیش کر رکھا تھا۔ وہ سن 1982 سے سن 1990 تک چاڈ پر حکومت کرتے رہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ امریکا اور دوسری مغربی قوتیں حبری کو لیبیا کے معمر القذافی کے مقابلے پر اپنے حلیف کے طور پر لائی تھیں۔
حسین حبری کی آمرانہ حکومت میں روا رکھے گئے مظالم کا حساب کرنے کے لیے سینیگال اور افریقن یونین کے درمیان ایک سمجھوتا سن 2012 میں طے پایا تھا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ حسین حبری پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
آج کی عدالتی کارروائی سے براعظم افریقہ میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو گیا ہے کیونکہ کئی افریقی ملکوں کے حکمرانوں پر انسانوں کو ہلاک کر کے جابرانہ حکومتی تسلسل برقرار رکھنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ حبری کو سن 2013 میں سینیگال ہی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ملکی اقتدار چھوڑنے کے بعد اب ڈاکار میں رہائش پذیر ہو چکے ہیں۔ موجودہ سینگالی صدر نے سن 2012 میں منصبِ صدارت پر براجمان ہونے کے بعد حبری کا مقدمہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایکسٹرا آرڈینری افریقن چیمبرز میں وار کرائمز یا انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افریقی افراد کےخلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی۔