1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

بیٹی کے قاتل، اپنے ہی بیٹے کو معاف نہیں کروں گا، والد قندیل

بینش جاوید
11 اکتوبر 2016

مقتولہ پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کے والد نے کہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف نہیں کریں گے جس نے ان کی بیٹی کو’غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2R7lz
تصویر: Getty Images/S.Mirza

گزشتہ ہفتے پاکستان نے غیرت کے نام پر قتل جیسی فرسودہ رسم کے خلاف ایسے قانون میں ترمیم کی تھی جس کے تحت قندیل بلوچ کے بھائی جیسے قاتلوں کو جیل سے بچنے کے راستے میسر تھے۔ کئی سوعورتوں کو پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ نیا قانون ایک اہم پیش رفت ہے تاہم کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں اس قانون میں قاتل کو مزید سخت سزا دیے جانے کی گنجائش موجود ہے۔

قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’میری بیٹی کے قتل میں ملوث میرا بیٹا اور اس کے ساتھ تین ساتھیوں کو سزا ملنی چاہیے چاہے عمر قید یا سزائے موت، مجھے اس کی خوشی ہوگی اور میری طرف سے انہیں کوئی معافی نہیں ملے گی۔‘‘

Qandeel Baloch Bloggerin
قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی معاشرے میں اس کے بھائی کی سزا کے حوالے سے متضاد آراء سامنے آئی تھیتصویر: Facebook/Qandeel Baloch via Reuters

قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کرنے سے متعلق نئے قانون سے آگاہ نہیں ہیں۔ قندیل کی والدہ انور مائی کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو اندازہ نہیں تھا کہ قندیل کے قتل کے کیا اثرات ہوں گے۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی معاشرے میں اس کے بھائی کی سزا کے حوالے سے متضاد آراء سامنے آئی تھی۔

قندیل بلوچ کے بھائی نے میڈیا کے سامنے کہا تھا، ’’مجھے اپنے کیے پر شرمندگی نہیں ہے، میری بہن کے کام قابل برداشت نہیں تھے۔‘‘

مائی نے اے ایف پی کوبتایا، ’’وسیم نے سوچا تھا کہ اسے صرف دو یا تین مہنیے کی سزا ہو گی اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا ہائی پروفائل کیس بن جائے گا۔‘‘ قندیل کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا سوچ رہا تھا کہ اس کیس میں اس کے والدین شکایت کنندہ ہوں گے اور پرانے قانون کے تحت اگر وہ اسے معاف کر دیں گے تو اسے سزا نہیں ہو گی۔

Pakistan Beerdigung Qandeel Baloch
قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کرنے سے متعلق نئے قانون سے آگاہ نہیں ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza

دوسری جانب چند وکلاء کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو عمر قید کی سزا تو دی جائے گی لیکن اس کے باوجود ایسے کیسز میں جج  کے اپنی صوابدید پر بہت کچھ چھوڑ دیا گیا ہے۔ وکیل انیس جیلانی کا کہنا ہے، ’’اگر قانون ساز عمر قید کو لازمی کرنا چاہتے تھے تو انہیں قانون میں یہ لکھنا چاہیے تھا۔‘‘ قانون کی پروفیسر عبیرہ اشفاق کا کہنا ہے کہ ایسے زیادہ تر کیسز عدالت جانے سے قبل پولیس کے ساتھ ہی طے ہو جاتے ہیں۔ عبیرہ کہتی ہیں، ’’ہمیں اسے’غیرت کے نام‘ پر قتل نہیں کہنا چاہیے بلکہ اسے کوئی انتہائی برا نام دینا چاہیے یہ جرم ہے ۔‘‘ عبیرہ کہتی ہے کہ کسی ہائی پرفائل کیس میں انصاف ملنے کے بعد شاید ملک میں ’غیرت کے نام ‘ پر قتل جیسے غلط فعل میں کمی آسکے۔