1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بیٹل آف ویردون‘ کی یادیں اور آج کا یورپ

شامل شمس29 مئی 2016

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے اتوار کے روز پہلی عالمی جنگ سے متعلق اس جگہ پر حاضری دی، جہاں ہزاروں کی تعداد میں فوجی مارے گئے تھے۔ دونوں رہنما پہلی جنگ عظیم کی صد سالہ تقریب میں شریک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/1Iwln
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

'دا بیٹل آف ویردون‘ قریباً نو ماہ تک جاری رہی تھی، جس میں جرمن اور فرانسیسی افواج مد مقابل تھیں۔ فرانسیسی تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اب بھی ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کی باقیات اس علاقے میں بکھری پڑی ہیں۔ اس موقع پر میرکل کا کہنا تھا کہ ویردون نہ صرف یہ کہ غیر معمولی مظالم اور جنگ کی رائیگانی کی علامت ہے، وہ فرانس اور جرمنی کے درمیان امن کی بھی ایک دلیل ہے۔

فرانسیسی صدر اولانڈ کا کہنا تھا کہ ویردون کا مقام بہ یک وقت ایک بدترین اور بہترین یورپ کی غمازی کرتا ہے۔ ’’بدترین اس لیے کہ سو برس قبل یورپ یہاں ہار گیا تھا اور بہترین اس لیے کہ اس شہر نے فرانس اور جرمنی کے درمیان دوستی کی بنیاد بھی رکھی۔‘‘

ویردون کا مقام ایک طرح کی علامتی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ انیس سو چوراسی میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا متراں اور سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے یہیں فوجیوں کی قبر پر مصافحہ کیا تھا۔ اتوار کے روز بھی میرکل اور اولانڈ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مضبوط یورپ کی بات کی۔

یورپی یونین کو اس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ جرمنی اور فرانسی کی کوشش ہے کہ اس بلاک کو مستحکم رکھا جا سکے۔ جہاں ایک طرف مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین نے یورپی ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوا دی ہے، وہیں برطانیہ اگلے ماہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کرنے جا رہا ہے کہ یورپی یونین میں رہا جائے یا نہیں۔

اتوار کے روز ہونے والی تقریب کی ایک خاص بات اس میں چار ہزار نوجوانوں کی شرکت بھی تھی۔ تقریب کے منتظمین میں سے ایک فولکر شلوئنڈورف کا کہنا تھا کہ ویردون کی یاد اب نئی نسل کے ہاتھ میں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اہم بات یہ ہے کہ تقریب کو سیاست دانوں اور افواج کے ہاتھ سے لے کر نوجوانوں کے سپرد کیا جائے۔ یہ دوبارہ شعلوں کو بھڑکانے کی بات نہیں ہے۔ یہ ہزار بار قومی ترانے گانے کی بھی بات نہیں ہے۔ یہ بات در حقیقت ان پندرہ منٹوں کی ہے، جن میں نوجوان اس یادگار کو اپنے ہاتھ لیں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید