بیجنگ حکومت مذہبی آزادی کو یقینی بنائے، چینی مسیحیوں کی اپیل
12 مئی 2011چین کی سوا ارب سے زائد کی آبادی میں سے ایک اندازے کے مطابق 40 ملین پروٹسٹنٹ اور 14ملین کیتھولک ہیں۔ مختلف تنظیموں کا خیال ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد غیر اندراج شدہ کلیساؤں کے رکن ہیں۔ چین میں آباد کرسچن باشندے ایک طویل عرصے سے مذہبی آزادی کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔ تاہم اب گھروں میں قائم 17کلیساؤں نے مل کر ملکی قانون سازوں سے اپیل کی ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ التماس ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب ابھی گزشتہ دنوں ہی بیجنگ میں پولیس نے متعدد مسیحیوں کو کھلے عام عبادت کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا تھا۔
اپنی نوعیت کی یہ پہلی درخواست دستی طور پر چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کو پہنچا دی گئی ہے۔ اس میں تحریر ہے ’’ہم نے محسوس کیا ہے کہ حکومت اور کلیسا کے مابین تنازعہ بیجنگ تک بھی پہنچ گیا ہے۔ اور حکومت ابھی تک اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی‘‘۔ ساتھ ہی گزشتہ اتوار کو شاؤگان چرچ سے تعلق رکھنے والے ارکان کی گرفتاری کے واقعے کی چھان بین کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ شاؤ گان چرچ نے اپنےارکان کو کھلے عام عبادت کرنے کی کال دی تھی، جس کے بعد اس چرچ کے کئی نمائندوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور کئی نظر بند کر دیے گئے تھے۔
چین میں عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت لینا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں نے اپنے گھروں اور مختلف عمارتوں میں عبادت گاہیں بنا رکھی ہیں اور ان میں سے اکثر غیر قانونی طور پر قائم کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی پولیس چھاپہ مارتی ہے تو گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں، چرچ کو تالا لگا دیا جاتا ہے اورکبھی کبھار تو پوری بلڈنگ ہی منہدم کر دی جاتی ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک