1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک سے کیسے نمٹیں، برلن گرین ویک

Kinkartz, Sabine / امجد علی20 جنوری 2014

دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ انسان بھوک کا شکار ہیں۔ برلن میں جاری گرین ویک کے موقع پر بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی آبادی میں ہونے والے اضافے کے باعث مستقبل میں تباہ کن حالات پیدا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Atny
برلن میں چھبیس جنوری تک جاری رہنے والے زرعی مصنوعات کے میلے گرین ویک میں ستّر ممالک سے آئے ہوئے 1650 نمائش کنندگان شریک ہیں
برلن میں چھبیس جنوری تک جاری رہنے والے زرعی مصنوعات کے میلے گرین ویک میں ستّر ممالک سے آئے ہوئے 1650 نمائش کنندگان شریک ہیںتصویر: DW

جہاں سن 1800ء میں دنیا بھر میں ایک ارب انسان رہ رہے تھے، وہاں آج کل عالمی آبادی سات ارب ہے اور 2050ء تک نو ارب تک پہنچ جائے گی۔ ان تمام انسانوں کو خوراک کی فراہمی سیاسی شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گی، جیسا کہ برلن میں گرین ویک کے موقع پر کہا، وفاقی جرمن وزیر زراعت ہنس پیٹر فریڈرش نے:’’دنیا بھر میں 850 ملین انسانوں کو بھوک اور موت کا جبکہ اندازاً دو ارب انسانوں کو کم خوراکی کا سامنا ہے۔ میرے خیال میں خوراک کا انسانی حق اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی بدلتی عادات کو دیکھتے ہوئے تمام انسانوں تک خوراک پہنچانے کے لیے دنیا بھر میں اَشیائے خوراک کی پیداوار میں ستّر فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ تاہم دیگر ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ آج کل دنیا میں رائج زرعی نظاموں کے ساتھ زرعی پیداوار میں اس حد تک اضافہ ممکن ہی نہیں ہے اور زرعی شعبے میں انقلاب لانے کی ضرورت ہو گی۔

افریقی ملک زیمبیا کا ایک تہائی حصہ زرعی رقبے پر مشتمل ہے اور وہاں زیادہ تر مقامی روایتی طریقوں سے مکئی کی فصل اگائی جاتی ہے
افریقی ملک زیمبیا کا ایک تہائی حصہ زرعی رقبے پر مشتمل ہے اور وہاں زیادہ تر مقامی روایتی طریقوں سے مکئی کی فصل اگائی جاتی ہےتصویر: DW

بھوک کے انسداد کے لیے سرگرم جرمن تنظیم ’بروٹ فیور دی ویلٹ‘ سے وابستہ بیرنہارڈ والٹر کے مطابق اس زرعی انقلاب کے سلسلے میں مختلف دھڑوں کے مابین بڑے پیمانے پر موجود اختلافات کے باعث زرعی انقلاب کی جانب پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ایک طرف صنعتی شعبے کا ماڈل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ہمیں زیادہ مقدار میں کھادیں اور کیڑے مار ادویات کے ساتھ ساتھ جینیاتی ٹیکنالوجی بھی استعمال کرتے ہوئے زرعی پیداوار بڑھانی چاہیے۔ دوسرا طبقہ کلیسائی تنظیموں اور این جی اوز کا ہے، جو کہتا ہے کہ جنوبی نصف کرّے کے چھوٹے کاشتکاروں پر توجہ مرکوز کی جائے اور اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیداوار کو بہتر بنایا جائے۔‘‘

یہی تنازعہ برلن میں جاری گرین ویک میں بھی نظر آ رہا ہے، جہاں 2008ء سے ایک طرح کی زرعی سربراہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر گرین ویک میں جمع 69 وزرائے زراعت میں زیمبیا کے رابرٹ سی شِنگا بھی شامل تھے۔ اس افریقی ملک کا ایک تہائی حصہ زرعی رقبے پر مشتمل ہے، جس پر زیادہ تر مکئی کاشت کی جاتی ہے۔ زیمبیا کے وزیر سی شِنگا کا کہنا تھا:’’ہم اَشیائے خوراک کے معاملے میں ہرگز دیگر ممالک کے محتاج نہیں ہونا چاہتے۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اپنے ہاں مکئی کی فصل نہ اگائیں بلکہ جنوبی امریکا میں اگنے والی مکئی درآمد کریں۔ ہماری نظر میں یہ ایک مضحکہ خیز تجویز ہے، جسے ہم کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے۔‘‘

جہاں کچھ حلقے زیادہ کھاد اور بہتر کیڑے مار ادویات کے ساتھ ساتھ جینیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار بڑھانے پر زور دیتے ہیں، وہاں دیگر حلقے کسی علاقے کی مقامی روایات اور تجربات کی مدد سے پیداوار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں
جہاں کچھ حلقے زیادہ کھاد اور بہتر کیڑے مار ادویات کے ساتھ ساتھ جینیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار بڑھانے پر زور دیتے ہیں، وہاں دیگر حلقے کسی علاقے کی مقامی روایات اور تجربات کی مدد سے پیداوار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیںتصویر: Jörg Böthling/Brot für die Welt

زیمبیا میں ساری توجہ اُن چھوٹے کاشتکاروں پر دی جا رہی ہے، جو مکئی کاشت کرنے کے روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں کی حکومت بڑے پیمانے پر سرکاری مراعات دیتے ہوئے بیج اور کھاد خریدنے میں مدد دیتی ہے۔ پھر حکومت مکئی خرید کر قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

جہاں زیمبیا کی حکومت اپنے ہاں جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ مکئی اگانے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے، وہاں گھانا، نائجیریا، تنزانیہ، کینیا اور بُرکینافاسو جیسے دیگر افریقی ممالک جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ مکئی ہی نہیں بلکہ کپاس، گنا اور کیلے بھی کاشت کر رہے ہیں۔

برلن میں جمع وُزرائے زراعت کے اختتامی اعلامیے میں نئی تجاویز اور اقدامات کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا، البتہ اس عزم کا ضرور اعادہ کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور محدود وسائل کے پیشِ نظر زرعی شعبے کو زیادہ متنوع، پائیدار اور بارآور بنانے کی کوششیں کی جائیں گی۔