1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کثیرالثقافتی سماج کو عدم برداشت کا سامنا

عابد حسین14 اکتوبر 2015

بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے رونما ہونے والے پرتشدد واقعات سے بھارتی سماج کی مختلف جہتیں خطرات سے دوچار ہیں۔ انتہا پسند ہندو کھلے عام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GnpU
ایک گرجا گھر پر کٹر ہندو اپنا پرچم لہرتا ہواتصویر: AP

مبصرین کے مطابق بھارت میں جس انداز میں ہندو انتہا پسند متحرک ہیں، وہ خاصا خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ ایام میں ایسے ہندوؤں نے ایک دانشور اور کٹر کمیونسٹ کو قتل کر دیا، پھر گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا گیا اور ایسے دوسرے واقعات پر بھارتی معاشرت سے ہمدردی رکھنے والے شدید پریشان ہیں کیونکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد بھارت جیسے بڑے ملک کی سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اِس عمل سے بھارتی اقتصادی ترقی کو شدید نقصانات کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔

بھارتی وزیراعظم بھی مذہبی عدم برداشت کے معاشی ترقی پر منفی اثرات کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں۔ نریندر مودی نے ایک دو ہفتے قبل کہا تھا کہ مذہبی منافرت پر مبنی تقسیم بھارت کی اقتصادی ترقی کے لیے شدید خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ مودی نے واضح طور پر اپنی عوام سے کہا کہ ہندووں نے غربت کے خلاف جنگ کرنی ہے یا مسلمانوں کے خلاف۔ مودی نے بھارتی کی اجتماعی ترقی میں اتفاق و اتحاد، مذہبی ہم آہنگی، بھائی چارے اور سماجی امن کو اہم قرار دیا۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی بھی منافرت کی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچے ہیں اور اُن کے دور میں بھارت کے ہندو اپنی انتہا پسندی کا مظاہرہ ہر انداز میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بھارت کے ممتاز ادیب اور استاد گنیش دیوی کا کہنا ہے کہ سارے بھارت میں عدم برداشت کو مذہب اور کلچر میں تطہیر کے نام پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ دیوی کے مطابق یہ رویے بھارتی معاشرتی جہتوں کے منافی ہیں۔ گنیش دیوی اُن 41 ادیبوں میں شامل ہیں جنہوں نے آزادیء رائے کے منافی حالیہ پرتشدد واقعات اور عدم برداشت میں اضافے کے تناظر میں اکیڈمی آف لیٹرز یا ساہتیہ اکیڈمی کے اعلیٰ ملکی ایوارڈز کو واپس کر دیا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں میں شامل افراد کا تعلق بی جےپی کی نظریاتی اساس رکھنے والے گروپ راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ کے علاوہ کئی دوسرے کٹر گروپ سے خیال کیا جاتا ہے۔

RSS volunteers participating in a drill at the organisation's third year Officers' Training Camp (OTC) in Nagpur
تصویر: UNI

ایک اور بھارتی ادیب ششی دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اُس کی اخلاقی ذمہ داری ملکی لیڈر پر عائد ہوتی ہے، اگر وزیراعظم ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں تو اِس کا گہرا اثر مرتب ہو گا۔ دیش پانڈے کا خیال ہے کہ حالیہ پرتشدد واقعات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ریاست ایسے حملوں کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے اور مودی حکومت کے گزشتہ پندرہ مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے، اِس دوران کسی ایک ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم سینٹر فار سول سوسائٹی نامی تھنک ٹینک کے سربراہ پارتھ جے شاہ کا کہنا ہے کہ جس انداز میں عدم برداشت پھیل رہی ہے، اُس کی مناسبت سے مودی کے ایجنڈے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اِس سے اُن کے حامی بھی اتفاق کرتے ہیں۔ سماجیات کے ماہر شیو وشواناتھن کو خوف ہےکہ عدم برداشت کی جڑیں گہری ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں میں سرایت کر چکی ہے۔ وشواناتھن کے مطابق مودی حکومت نصاب، تاریخ، جمالیاتی فنون اور کلچر پر کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بھارت کی وزراتِ تعلیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر پہلو کو ہندو پس منظر کے ساتھ کتب میں شامل کرے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید