1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارتی نقشہ غلط دکھانے پر سات سال قید یا سو کروڑ جرمانہ‘

جاوید اختر، نئی دہلی6 مئی 2016

بھارتی حکومت ایک ایسا قانون متعارف کروانے جا رہی ہے، جس کے تحت ملک کا نقشہ غلط یا متنازعہ علاقوں کو الگ دکھانے پر سات سال تک قید یا دس لاکھ سے ایک سو کروڑ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IjKI
Karte Indien Kalkutta Englisch

نریندر مودی حکومت نے یہ فیصلہ حالیہ دنوں کئی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں پر کشمیر کے کچھ حصے کو پاکستان اور شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے بعض علاقوں کو چین کے حصے کے طور پر دکھانے کے واقعات کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اروناچل پردیش کے ایک بڑے حصے پر چین بھی اپنا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے سرکاری نقشے میں اس علاقے کو اپنے ملک کا حصہ دکھاتا ہے۔ دوسری طرف کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں اور اس مسئلے پر دونوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
ٹوئٹر پر جب حال ہی میں کشمیر کو چین اور جموں کو پاکستان کے حصے کے طور دکھایا گیا تو بھارت نے سخت احتجاج کیا گیا، جس کے بعد اسے درست کیا گیا تھا۔ اسی طرح پچھلے دنوں بھارت کے دورہ پر آئے ہوئے ملیشیا کے وزیر صنعت و تجارت داتو سری مصطفیٰ محمد نے جب ایک پرزینٹیشن دیتے وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے دیا تو پروگرام کے شرکاء نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا، جس کے بعد انہیں معذرت کرنا پڑی تھی۔

ماضی میں بھی اس طرح کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں ۔گزشتہ سال الجزیرہ ٹی وی چینل نے جب کشمیر کا متنازع نقشہ دکھایا تو نئی دہلی حکومت نے بھارت میں پانچ دن کے لئے اس کی نشریات بند کردی تھیں۔ 2014ء میں انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے بھارت کا غلط نقشہ شائع کیا تو سرکاری ادارہ سروے آف انڈیا نے اس کے خلاف پولیس میں معاملہ درج کرادیا تھا۔ 2010ء کا واقعہ اس سے بھی دلچسپ ہے، جب لندن سے شائع ہونے والے مقبول جریدہ ’اکنامسٹ‘ نے کشمیر کا متنازعہ نقشہ شائع کیا توبھارت میں حکومت نے اس کی تمام تر کاپیوں میں نقشے کے اوپر ایک سفید کاغذ چسپاں کرنے کا حکم دیا تھا۔ ’اکنامسٹ ‘ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارت اس معاملے میں پاکستان اور چین سے زیادہ عدم روادار ہے۔ 2013ء میں سرکاری تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آ ف انوسٹی گیشن(سی بی آئی) نے گوگل پر حساس اور فوجی علاقوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف انکوائری شرو ع کردی تھی۔

حکومت نے بھارت کا نقشہ غلط شائع یا نشر کرنے کے رجحان کو روکنے کے لئے ’’جیو اسپیشیل انفارمیشن ریگولیشن بل 2016ء‘‘ کے نام سے مسودہ قانون کو عوام کے تبصروں اور مشوروں کے لئے عام کردیا ہے اور تیس دن کے اندر لوگوں سے اپنی رائے دینے کی اپیل کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ’’کوئی بھی شخص بھارت کی بین الاقوامی سرحدوں سمیت اس کی غلط ٹوپوگرافک انفارمیشن نہ تو دکھا سکتا ہے، نہ تو فراہم کر سکتا ہے، نہ ہی شائع یا تقسیم یا نشر کرسکتا ہے۔‘‘ بل میں مزید کہا گیا ہے، ’’کوئی بھی شخص سیٹلائٹ، ایئر کرافٹس، ایئر شپ، بیلون، ڈرون یا کسی بھی طر ح کے وہیکل کے ذریعے ایریل یا اسپیس ویو کے ساتھ بھارت کے کسی حصے کا جیو اسپیشیل امیج حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ نقشوں کے لئے اس طرح کی کوئی بھی معلومات حاصل کرنے اور اسے سائٹس یا ایپس کے ذریعے دکھانے کے لئے مجاز اتھارٹی سے لائسنس حاصل کرنا ہوگا اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر دس لاکھ روپے سے ایک سو کروڑ روپے تک کا جرمانہ یا سات سال کی قید ہوسکتی ہے۔‘‘

اگر یہ قانون نافذ ہوجاتا ہے تو گوگل جیسے آن لائن پلیٹ فارم کو بھارت میں گوگل میپس یا گوگل ارتھ چلانے کے لئے لائسنس لینا پڑے گا۔ حتی کہ ویکیپیڈیا کو بھی بھارت کے نقشے استعمال کرنے کے لئے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی۔ یاد رہے کہ بھارت میں اوبیر اور اولا جیسی ٹیکسی کمپنیاں جو ایپ پر مبنی سروسز دیتی ہیں اور ان کی کیب بک کرانے والے لوگ اور انہیں چلانے والے ڈرائیور ایپ پر مبنی نقشے استعمال کرتے ہیں۔ زوماٹو جیسی کمپنیاں فوڈ ڈیلیوری کے لئے ایپ پر مبنی نقشے استعمال کرتی ہیں اور ان سب کو حکومت سے لائسنس لینا پڑے گا۔

بھارتی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں نقشوں پر اس طرح کی پابندی بے معنی ہے۔ بھارت کے عوام سمجھدار اور بالغ النظر ہیں، اس لئے حکومت کو اس طرح کے غیر ضروری اقدامات پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے ملک کو درپیش اصل مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔