بھارتی سپریم کورٹ نے ایک صدی پرانے تنازعے میں فیصلہ سنا دیا
16 فروری 2018سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس دیپک مِشرا خود کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں کرناٹک ریاست کو ملنے والے دریائی پانی میں اضافہ جبکہ تامل ناڈو ریاست کے لیے پانی کا مخصوص کوٹہ کم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ دریائے کاویری بھارت کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے اور اسے کرناٹک اور تامل ناڈو کی ریاستوں کے لیے انتہائی اہم خیال کیا جاتا ہے۔ یہ دریا کرناٹک ریاست سے بہتا ہوا نیچے کی طرف ریاست تامل ناڈو کی طرف جاتا ہے اور پھر خلیج بنگال سے بحرہند میں جا گرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق ریاست کرناٹک اب تقریبا ایک سو ستتر بلین کیوبک فٹ پانی تامل ناڈو کو دیا کرے گی۔ یہ اس کوٹے سے ایک سو بانوے بلین کیوبک فٹ کم ہے، جو پہلے تامل ناڈو کو فراہم کیا جاتا تھا۔ قبل ازیں تامل ناڈو کے لیے پانی کا یہ کوٹہ سن دو ہزار سات میں بننے والے کاویری واٹر ٹریبیونل نے مختص کیا تھا۔
کرناٹک حکومت کے مشیر موہن وی کٹرکی کا عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس فیصلے کے دور رس نتائج ثابت ہوں گے اور یہ امن کے ساتھ ساتھ تلخیوں کے خاتمے کا موجب بھی بنے گا، یہ ایک متوازن فیصلہ ہے۔‘‘
بھارت کا پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے کا اشارہ
دریائے کاویری ایک طویل عرصے سے دونوں ریاستوں کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ دونوں ریاستوں کا موقف ہے کہ ان کے کسانوں کو اپنی فصلوں کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہے۔ دونوں ریاستوں کے مابین یہ تنازعہ ماضی میں کیے جانے والے دو معاہدوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ ان میں سے ایک معاہدہ سن اٹھارہ سو بانوے جبکہ دوسرا سن انیس سو چوبیس میں طے پایا تھا۔
آج سولہ فروری کو سنائے جانے والے اس عدالتی فیصلے کے سیاسی نتائج بھی ثابت ہوں گے کیوں کہ چند ماہ بعد ہی کرناٹک ریاست میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ دوسری جانب تامل ناڈو ریاست نے ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں۔ اس ریاست کے کسانوں نے اس عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔